سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں سورج گرہن ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع نہیں کر یں گے پھر رکوع کیا تو رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے پھر رکوع سے سر اٹھایا تو سجدے میں جاتے ہوئے نہ لگے سجدے میں چلے گئے تو ایسا لگا کہ سجدے سے سر نہیں اٹھائیں گے پھر بیٹھے تو یوں محسوس ہوا کہ اب سجدہ نہیں کر یں گے پھر دوسرا سجدہ کیا تو اس سے سر اٹھاتے ہوئے محسوس نہ ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر پھونکتے جاتے تھے اور دوسری رکعت کے سجدے میں یہ کہتے جاتے تھے کہ پروردگار تو میری موجودگی میں انہیں عذاب دے گا؟ پروردگار ہماری طلب بخشش کے باوجود تو ہمیں عذاب دے گا؟ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا تو سورج گرہن ختم ہوچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مکمل فرمائی اور اللہ کی حمد وثناء کر نے کے بعد فرمایا: ”۔ لوگو! سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کو گہن لگ جائے تو مسجدوں کی طرف ڈورو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا اور اسے میرے اتناقریب کر دیا گیا کہ اگر میں اس کی کسی ٹہنی کو پکڑنا چاہتا تو پکڑ لیتا اسی طرح جہنم کو بھی میرے سامنے پیش کیا گیا اور اسے میرے اتنا قریب کر دیا گیا کہ میں اسے بجھانے لگا اس خوف سے کہ کہیں وہ تم پر نہ آپڑے اور میں نے جہنم میں قبیلہ حمیر کی ایک عورت کو دیکھاجو سیاہ رنگت اور لمبے قد کی تھی اسے اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جارہا تھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا نہ خودا سے کھلایا پلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ خود ہی زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی وہ عورت جب بھی آگے بڑھتی تو جہنم میں وہی بلی اسے ڈستی اور اگر پیچھے ہٹتی تو اسے پیچھے سے ڈستی نیز میں نے وہاں بنو دعدع کے ایک آدمی کو بھی دیکھا اور میں نے لاٹھی والے کو بھی دیکھاجو جہنم میں اپنی لاٹھی سے ٹیک لگائے ہوئے تھا یہ شخص اپنی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا اور جب حاجیوں کو پتہ چلتا تو کہہ دیتا کہ میں نے اسے چرایا تھوڑی ہے یہ چیز تو میری لاٹھی کے ساتھ چپک کر آگئی تھی۔ [مسند احمد/مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ/حدیث: 6483]