حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ وہاں موجود تھا اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لئے اذان دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی سے کہہ دو کہ لوگوں کو نماز پڑھادے میں باہر نکالا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں میں موجود تھے اور حضرت ابوبکر صدیق موجود نہ تھے میں نے کہا کہ عمر! آگے بڑھ کر نماز پڑھائیے، چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے جب انہوں نے تکبیر کہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز سنی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز بلند تھی تو فرمایا کہ ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس سے انکار کرتے ہیں اللہ اور مسلمان اس سے انکار کرتے ہیں، پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر انہیں بلایا جب وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ نماز پڑھاچکے تھے پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا ہائے افسوس! اے ابن زمعہ! یہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟ بخدا! جب تم نے مجھے آگے بڑھنے کے لئے کہا تو میں یہی سمجھا کہ اس کا حکم تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اگر ایسا نہیں تھا تو میں لوگوں کو کبھی بھی نماز نہ پڑھاتا میں نے ان سے کہا کہ واللہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ مجھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دکھائی نہیں دئیے تھے تو میں نے حاضرین میں آپ سے بڑھ کر کسی کو امامت کا مستحق نہیں پایا۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18906]
حكم دارالسلام: ابن إسحاق وإن صرح بالتحديث قد اختلف عليه فى إسناده ، ثم إن فى متنه ما يمنع القول بصحته