سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم خیبر سے واپس آرہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متفرق مقامات پر کچھ آگ روشن دیکھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کس مقصد کے لئے جلا رکھی ہے؟ لوگوں نے بتایا پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہانڈیاں الٹ دو اور جو کچھ اس میں ہے سب بہا دو، لوگوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا اس میں جو کچھ ہے، اسے بہا کر برتن کو بھی دھوئیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور کیا؟ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16513]
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں " غابہ " جانے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلا، جب میں اس کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ملا، میں نے اس سے پوچھا: ارے کیا بات ہے؟ (کیوں گھبرائے ہوئے ہو؟) اس نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں، میں نے پوچھا کہ کس نے چھینی ہیں؟ اس نے بتایا کہ ابوغطفان اور بنو فزارہ نے، اس پر میں نے تین مرتبہ اتنی بلند آواز سے " یا صباحاہ " کا نعرہ لگایا کہ مدینہ منورہ کے دونوں کانوں تک میری آواز پہنچ گئی۔ پھر میں وہاں سے ان کے پیچھے روانہ ہوا یہاں تک کہ انہیں جا لیا، انہوں نے واقعتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹیاں پکڑ لی تھیں، میں ان پر تیروں کی بارش کرنے اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ میں ہوں اکوع کا بیٹا، آج کا دشمنوں کو کھٹکھٹانے کا دن ہے، بالآخر میں نے ان سے وہ انٹیاں بازیاب کرا لیں، جبکہ ان لوگوں نے ابھی تک پانی بھی نہیں پیا تھا۔ پھر انہیں ہانکتا ہوا لے کر واپس روانہ ہو گیا، راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ لوگ ابھی پیاسے ہی تھے کہ میں نے ان کے پانی پینے سے قبل تیزی سے انہیں جالیا، اس لئے آپ ان کے پیچھے روانہ ہو جائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! تم نے ان پر قابو پالیا (اور اپنی چیز واپس لے لی) اب ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر و، اب اپنی قوم میں ان لوگوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہو گی۔ [مسند احمد/مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ/حدیث: 16513M]