شعبی ؒ بیان کرتے ہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ، کعب رضی اللہ عنہ کو عرفات کے میدان میں ملے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کسی چیز کے متعلق مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے (زور سے) اللہ اکبر کہا حتی کہ پہاڑوں نے انہیں جواب دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم بنو ہاشم ہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے اپنی رؤیت اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسی ؑ کے درمیان تقسیم فرمایا ہے، موسی ؑ نے دو مرتبہ کلام کیا ہے جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دو مرتبہ دیکھا ہے۔ مسروق ؒ بیان کرتے ہیں میں عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے پوچھا کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا: تم نے ایسی چیز کے متعلق بات کی ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں، میں نے عرض کیا: ذرا سکون فرمائیں، پھر میں نے یہ آیت تلاوت کی: ”اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی بعض بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “ انہوں نے فرمایا: یہ (آیت) تمہیں کدھر لے جا رہی ہے؟ اس سے مراد تو جبریل ؑ ہیں، جو شخص تمہیں یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بیان کرنے کا) حکم دیا گیا تھا تو آپ نے اس میں سے کوئی چیز چھپا لی؟ یا آپ وہ پانچ چیزیں جانتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، اور وہی بارش برساتا ہے۔ “ اور یہ (کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے) تو یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل ؑ کو دیکھا ہے اور آپ نے انہیں ان کی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ ہی دیکھا ہے، ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ اجیاد (مکہ کے نشیبی علاقے) کے پاس، اس کے چھ سو پر ہیں۔ اور اس نے افق کو بھر دیا تھا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ نے کچھ اضافے اور کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے، ان کی روایت میں ہے، مسروق ؒ نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ”پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، تو کمان کا یا اس سے بھی کم فرق رہ گیا۔ “ کا کیا معنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: وہ (جبریل ؑ) آدمی کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے، اور اس مرتبہ وہ اپنی اس صورت میں آئے تھے جو کہ ان کی اصل صورت ہے، تو افق بھر گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی و اصل الحدیث عند البخاری و مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق/حدیث: 5661]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3278) ٭ فيه مجالد بن سعيد: ضعيف و أصل الحديث عند البخاري [4855] و مسلم [177] بغير ھذا اللفظ) والرواية الثانية صحيحة متفق عليھا (رواھا البخاري: 3235 و مسلم: 290/ 177)»