ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی کچھ زمین عمر رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے خیبر کی جو زمین ملی ہے اس سے پہلے اتنا نفیس مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو اس کا اصل مال تم رکھ لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شرط پر اسے صدقہ کیا کہ اس کے اصل کو بیچا جائے گا نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ ہی وراثت میں تقسیم ہو گا اور اس کی پیداوار کو فقراء، رشتہ داروں، غلاموں کو آزاد کرانے، اللہ کی راہ میں، مسافر پر اور مہمانوں پر خرچ کیا جائے گا، اور اس کی سرپرستی و نگرانی کرنے والے پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اس میں سے بھلے طریقے سے کھائے ذخیرہ نہ کرتے ہوئے دوسروں (اہل خانہ وغیرہ) کو بھی کھلائے۔ “ ابن سرین ؒ نے فرمایا: مال جمع کرنے والا نہ ہو۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب البيوع/حدیث: 3008]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2737) و مسلم (1632/15)»