سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں، تیرا رب کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے، پھر وہ پوچھتے ہیں: یہ آدمی جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، وہ کون تھے؟ وہ جواب دے گا وہ اللہ کے رسول ہیں، وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں: تمہیں کس نے بتایا؟ وہ کہتا ہے: میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، تو میں اس پر ایمان لے آیا اور تصدیق کی، اس کا یہ جواب دینا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: ”اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں، سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ “ فرمایا: آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، اسے جنتی بچھونا بچھا دو، جنتی لباس پہنا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، وہ کھول دیا جاتا ہے، وہاں سے معطر بادنسیم اس کے پاس آتی ہے، اور اس کی حد نگاہ تک اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر کی موت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے، دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں: وہ شخص جو تم میں مبعوث کیے گئے تھے، کون تھے؟ پھر وہی جواب دیتا ہے: ہائے! ہائے! میں نہیں جانتا، آسمان سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے: اس نے جھوٹ بولا، لہذا اسے جہنم سے بستر بچھا دو۔ جہنم سے لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو، فرمایا: جہنم کی حرارت اور وہاں کی گرم لو اس تک پہنچے گی، فرمایا: اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کی ادھر کی پسلیاں ادھر نکل جاتی ہیں۔ پھر ایک اندھا اور بہرا داروغہ اس پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ جس کے پاس لوہے کا بڑا ہتھوڑا ہوتا ہے، اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہو جائے، وہ اس کے ساتھ اسے مارتا ہے تو جن و انس کے سوا مشرق و مغرب کے مابین موجود ہر چیز اس مار کو سنتی ہے، وہ مٹی ہو جاتا ہے، تو پھر روح کو دوبارہ اس میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ “اس حدیث کو احمد اور ابوداؤد نے رویت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، دون قوله: ’’فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح‘‘ لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في ھذا اللفظ . رواه أحمد (4/ 287، 288 ح 18733) و أبو داود (3212، 4753) [و رواه الحاکم (37/1. 38 ح 107) و الطبراني في الأحاديث الطوال (المعجم الکبير 25/ 238. 240 ح 25) و سنده حسن و صححه البيهقي في شعب الإيمان: 395] »
قال الشيخ زبير على زئي: حسن، دون قوله: فيصير ترابًا ثم يعاد فيه الروح لأن فيه الأعمش مدلس و لم يصرح بالسماع في هذا اللفظ.
استعيذوا بالله من عذاب القبر ليسمع خفق نعالهم إذا ولوا مدبرين حين يقال له يا هذا من ربك وما دينك ومن نبيك قال هناد قال ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له من ربك فيقول ربي الله فيقولان له ما دينك فيقول ديني الإسلام فيقولان له ما هذا الرجل الذي بعث فيكم
يقال للكافر : من ربك ؟ ، فيقول : لا أدري ، فهو تلك الساعة أصم أعمى أبكم ، فيضربه بمرزبة ، لو ضرب بها جبل صار ترابا ، فيسمعها كل الثقلين ، قال : وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ : يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت فى الحياة الدنيا وفي الآخرة ويضل الله الظالمين سورة إبراهيم آية 27
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 131
تحقیق الحدیث: یہ حدیث (آخری جملے / کے بعد کو چھوڑ کر) حسن ہے۔ اسے أحمد و ابوداود کے علاوہ نسائی [3002] ابن ماجہ [1548، 1549] ہناد بن السری [کتاب الزہد 1؍205۔ 207 ح339] اور بیہقی [اثبات عذاب القبر ح 20، بتحقیقی] وغیرہم نے مختصراً ومطولاً روایت کیا ہے۔ امام بیہقی نے فرمایا: «هذا حديث صحيح الإسناد» ”یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے۔“[شعب الايمان 357/1ح 395] مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الحدیث حضرو [14 ص 22، 23] ◄ اس حدیث کے راویوں کا مختصر اور جامع تذکرہ درج ذیل ہے: ➊ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں . ➋ ابوعمر زاذان الکندی الکوفی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ دیکھئے: الحدیث [14ص24۔ 26] اور توضیح الاحکام [550/1۔ 556] لہٰذا ان پر جرح مردود ہے اور وہ صحیح الحدیث ہیں۔ ➌ منہال بن عمرو جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ وصدوق ہیں، لہٰذا ان کی حدیث صحیح یا حسن ہوتی ہے۔ دیکھئے: الحدیث [14 ص29] اور توضیح الاحکام [1؍556۔ 56۔] ➍ سلیمان بن مہران الاعمش ثقہ مدلس راوی ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داود [4754] دوسرے یہ کہ سلیمان الاعمش اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کی متابعت موجود ہے۔ ◄ خلاصہ یہ کہ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے۔ اسے قرطبی، ابن قیم، ابن تیمیہ اور منذری وغیرہم نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ [حاشية اثبات عذاب القبر للبيهقي ص2۔ يسر الله لنا طبعه] ↰ لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث پر جرح کرنا یا اسے قرآن مجید کے خلاف قرار دے کر رد کر دینا مر دود ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ عذاب قبر اور ثواب قبر دونوں برحق ہیں۔ ➌ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے۔ ➌ قبر میں اخروی و برزخی طور پر سوال و جواب کے وقت اعادۂ روح برحق ہے اور یہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہے۔ قرآن جس اعادۂ روح کی نفی کرتا ہے وہ دنیاوی اعادہ ہے اور حدیث جس کا اثبات کرتی ہے اس سے مراد برزخی اعادہ ہے۔ دیکھئے: [شرح عقيده طحاويه ص399، المكتب الاسلامي، طبعه ثانيه 1984ء] ➍ شیخ ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں: «وذهب إليٰ موجب هذا الحديث جميع أهل السنة والحديث» ”تمام اہلِ سنت: اہلِ حدیث اس حدیث (یعنی حدیث براء رضی اللہ عنہ) کے قائل ہیں۔“[شرح عقيده طحاويه ص398] ➎ تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ نجات صرف اسی میں ہے کہ آدمی قران و حدیث اور اجماع پر سلف و صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کرے اسی منہج پر عقیدے کی بنیاد رکھے اور ساری زندگی تحقیق و عمل میں گزار دے۔ ➏ عذاب قبر اسی دنیاوی قبر میں ہوتا ہے جسے زمین پر ارد گرد کے جانور سنتے ہیں۔ ➐ اس راویت میں جو آیا ہے کہ ”پھر وہ اسے ہتھوڑے کی ایک ضرب مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا مشرق و مغرب کے ہر چیز سنتی ہے، پھر وہ مٹی بن جاتا ہے، پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے“ اس خاص متن میں اعمش کے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا یہ متن مشکوک ہے اور ساری حدیث حسن ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2003
´جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا بیان۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے، جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو وہ تیار نہیں ہوئی تھی، چنانچہ آپ بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے، گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2003]
اردو حاشہ: (1)”بیٹھ گئے۔“ گویا دفن کرنے سے پہلے بیٹھا جا سکتا ہے بشرطیکہ میت کو زمین پر رکھ دیا گیا ہو۔ (2)”پرندے بیٹھے ہیں۔“ یہ سکون اور خاموشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے ساتھ ساتھ موقع و محل کی مناسبت سے تھی کہ قبر بنائی جا رہی ہے، میت پاس رکھی ہے اور قبر کے کنارے بیٹھے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2003
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3212
´قبر کے پاس کس طرح بیٹھیں؟` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے، قبر پر پہنچے تو ابھی قبر کی بغل کھدی ہوئی نہ تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3212]
فوائد ومسائل: قبر کے پاس یا قبرستان میں کسی ضرورت کے تحت بیٹھ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور قبلہ رو ہوکر بیٹھنا مستحب ہے۔ مگر قبر کا مجاور بن کر بیٹھنا حرام ہے۔ یاعین قبر کے اوپر بیٹھنا بھی ناجائز ہے۔ (مذید دیکھئے حدیث 3225)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3212
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1548
´قبرستان میں بیٹھنے کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، تو آپ قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1548]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قبر پر پاؤں رکھ کر گزرنا منع ہے۔ اور کسی قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا بھی منع ہے۔ لیکن قبروں کے درمیان کسی ضرورت کے تحت بیٹھنا جائز ہے۔ مثلاً قبر ابھی تیار نہیں ہوئی تو اس انتظا ر میں بیٹھ جانا درست ہے۔
(2) نماز کے علاوہ بھی قبلے کی طرف منہ کرکے بیٹھنا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1548
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1549
´قبرستان میں بیٹھنے کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنازہ میں نکلے، جب قبر کے پاس پہنچے تو آپ بیٹھ گئے، اور ہم بھی بیٹھ گئے، گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1549]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نبی اکرم ﷺ کا انتہائی احترام کرتے تھے۔ اس لئے آپ ﷺ کی موجودگی میں بلا ضرورت بات نہیں کرتے تھے۔
(2) قبرستان میں فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(3) سروں پر پرندے ہونے کا مطلب بہت زیادہ خاموشی سے بیٹھنا ہے۔ جیسے اگر کسی کے سر پر پرنده بیٹھ جائے اور وہ اسے پکڑنا چاہتا ہو تو وہ خاموش ہوکر بیٹھتا ہے۔ اور غیر محسوس طریقے سے حرکت کرتا ہے۔ تاکہ پرندہ اڑ نہ جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1549