سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہماری نماز کی طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ ایسا مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہے، سو تم اللہ کی امان اور ذمہ کو نہ توڑو۔“ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 13]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (391)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 13
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 391]
فقہ الحدیث ➊ اللہ اور رسول کے ذمہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اللہ و رسول کی امان، عہد اور ضمانت میں ہے۔ اس کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ اسے تمام وہی حقوق میسر ہوں گے جو عام مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرے گا جس کی سزا موت ہے تو اسے مسلمان حاکم و قاضی قتل کرا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ نواقض اسلام کا ارتکاب کرے گا تو ثبوت و اقامت حجت کے بعد اس کے بنیادی حقوق ختم کر دیئے جائیں گے۔ ➋ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام میں اعمال کا اعتبار ظاہر پر ہے۔ یعنی ظاہری طور پر ارکان اسلام ادا کرنے والا شخص ہی مسلم ہے، لہٰذا اس پر اسلام کے ظاہری احکام نافذ ہوں گے۔ رہا مسئلہ باطنی طور پر بھی مسلم و فرمان بردار ہونا تو یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ➌ ایمان کے ساتھ اعمال بھی ضروری ہیں، جبکہ مرجیہ یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ اعمال ضروری نہیں ہیں۔ اس حدیث سے ان مرجیہ پر بھی واضح رد ہوتا ہے۔ ➍ اس حدیث اور دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ نماز اسی طرح پڑھنی چاہئے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے نماز پڑھی ہے۔ ➎ اہل قبلہ پر اہل اسلام کے احکام جاری ہیں، الا یہ کہ وہ کفر صریح اور نواقص اسلام کا ارتکاب کریں۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ مرزا غلام قادیانی کذاب کے پیروکار، قادیانی مرزائی و لاہوری سب اہل اسلام (اہل قبلہ) سے خارج، کافر اور غیر مسلم ہیں۔ اس طرح کتاب و سنت اور اجماع سے جن لوگوں کا کافر و غیر مسلم ہونا ثابت ہے، وہ بھی اہل قبلہ اور اہل اسلام سے خارج ہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5000
´مسلم کی صفات۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے جیسی نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5000]
اردو حاشہ: یہ مسلمان کے ظاہری اوصاف ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بعد عبادات میں سے نماز ہی ایسی عبادت ہے جو اسلام کی علامت بن سکتی ہے کیو نکہ روزہ مخفی چیز ہے جبکہ زکاۃ ہر کسی پر فرض نہیں۔ ویسے بھی وہ سال میں ایک دفعہ لاگو ہوتی ہے۔ حج تو ہے ہی زندگی میں ایک بار اور وہ بھی ہر ایک پر فرض نہیں۔ پھر نماز چونکہ تمام ادیان میں موجود ہے، اس لیے مسلمانوں کی نماز کا امتیاز قبلے سے ہوگا کیو نکہ ہر دین کا لگ قبلہ ہوتا ہے۔ عبادات کے بعد معاملات اور معاشرت کا درجہ ہے۔ کفار کےنزدیک حلال وحرام کا کوئی تصور نہیں تھا، نیز ان کے نزدیک ذبیحہ اور میتہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کرنامسلمان کی خصوصیت ہے، لہذا وہ مسلمان ہے جو اللہ تعالی کے نام پر ذبح شدہ جانور کھائے، خود ذبح کرے یا کوئی اور کرے۔ یہ مسلمانوں کی معاشرتی علامت ہے اور ظاہر ہے۔ باقی علامات مخفی ہیں،اس لیے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5000
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:391
391. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے، لہذا تم اللہ کے ذمے میں خیانت (بدعہدی) نہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:391]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں استقبال قبلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ اس طرح کہ جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہماری نماز میں رکوع بھی ہے، سجدہ بھی ہے اور قبلے کی طرف منہ بھی، لیکن اس ضمنی تذکرے پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ استقبال قبلہ کومستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کی خصوصیت فضیلت اور اہمیت معلوم ہوگئی اور اس حقیقت پر تنبیہ ہوگئی کہ قبلے کا اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز پیداکرتی ہیں۔ نماز اور استقبال قبلہ مذہبی امتیاز ہے، کیونکہ دوسرے مذاہب میں اول تو نماز ہماری نماز کی طرح نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نماز میں استقبال قبلہ نہیں۔ تیسرا امتیاز ذبیحہ کا کھانا ہے جو معاشرتی امتیاز ہے، کیونکہ دیگر اہل مذاہب ہمارا ذبیحہ استعمال نہیں کرتے۔ گویا یہ تینوں چیزیں مسلمانوں کے لیے شعار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرکوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جس کے اختیار کرنے سے کفر لازم آتا ہے تو ان چیزوں کے اختیار کرنے والے کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ تین چیزیں ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جولوگ دین کی دوسری ضروریات کے ساتھ ان امتیازات کو قائم رکھیں وہ مسلمان ہیں۔ 2۔ جو شخص ضروریات دین کا انکار کرتاہے وہ اہل قبلہ نہیں رہتا۔ ضروریات دین سے مراد وہ چیزیں ہیں جوکتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ اور اجماع امت سے ثابت ہوں۔ ان تینوں ذرائع سے جتنے بھی عقائدواعمال اور فرائض ونوافل ثابت ہیں ان سب پر ایمان لانا، اور انھیں تسلیم کرنا ضروریات دین کہلاتا ہے، ان کا انکار یا تاویل باطل کفر ہے، مثلاً: نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے فرض ہونے کا اعتقاد بھی فرض، اس کاسیکھنا بھی فرض، اس سے ناواقفیت یا انکار کفر ہے۔ 3۔ دوران نماز میں قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے، البتہ عذر یا خوف کی حالت میں اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح نفلی نماز میں اس کے متعلق کچھ تخفیف ہے جبکہ سواری پر اد کی جارہی ہو۔ (فتح الباري: 644/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 391