الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


معجم صغير للطبراني
کتاب الادب
ادب کا بیان
43. ہر انسان کا اپنی رعیت کے نگراں ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 689
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ أَبُو الْفَوَارِسِ الْمَرْوَزِيُّ ، بِمِصْرَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى الْجَزَّارُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الرُّمَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ رَاعٍ عَلَى النَّاسِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ زَوْجَتِهِ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُهُ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ لِحَقِّ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ بَيْتِهَا وَوَلَدِهَا، وَالْمَمْلُوكُ رَاعٍ عَلَى مَوْلاهُ وَمَسْئُولٌ عَنْ مَالِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَأَعِدُّوا لِلْمَسَائِلِ جَوَابًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا جَوَابُهَا؟، قَالَ: أَعْمَالُ الْبِرِّ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا التَّمَامِ، إِلا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، وَلا عَنْ سَعِيدٍ، إِلا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ، تَفَرَّدَ بِهِ زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے اس کی بیوی اور غلام کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے اس سے گھر اور اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اپنے مالک کے مال کے متعلق پوچھا جائے گا، تو تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اس لئے سوالات کے جوابات تیار رکھنا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جواب کیا ہو سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا جواب نیک اعمال ہیں۔ [معجم صغير للطبراني/کتاب الادب/حدیث: 689]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4492، 4493، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9129، 9130، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1703، 3576، والطبراني فى «الصغير» برقم: 450، 669
قال ابن عدي: سند صحيح، تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي: (3 / 33)»

حكم: إسناده صحيح