بشر بن حکم نے بیان کیا، کہا: میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے سنا، انہوں نے حکیم بن جبیر اور عبد الاعلیٰ کو ضعیف قرار دیا اور (اسی طرح) یحییٰ نے موسیٰ بن دینار کو بھی ضعیف قرار دیا (اور) کہا: اس کی (بیان کردہ) حدیث ہوا (جیسی) ہے اور موسیٰ بن دہقان اور عیسیٰ ابی عیسیٰ مدنی کو (بھی) ضعیف قرار دیا۔ کہا: اور میں نے حسن بن عیسیٰ سے سنا، کہہ رہے تھے: مجھ سے ابن مبارک نے فرمایا: تم جب جریر کے پاس پہنچو تو تین (راویوں) کی احادیث کے سوا اس کا سارا علم لکھ لینا۔ عبیدہ بن معتب، سری بن اسماعیل اور محمد بن سالم کی احادیث اس سے نہ لکھنا۔
بشر بن حکمؒ بیان کرتے ہیں، میں نے یحییٰ بن سعید القطانؒ سے سنا، انھوں نے حکیم بن جبیراور عبدالاعلیٰ کو ضعیف قرار دیا، اور یحییٰ بن موسیٰ کی تضعیف کی اور فرمایا: ”اس کی حدیث ریح (ہوا) ہے۔“ یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور انھوں نے موسیٰ بن دہقان اور عیسیٰ ابی عیسیٰ مدنی کو بھی ضعیف قرار دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 92
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یحیٰ بن موسیٰ بن دینار، کا لفظ کسی راوی کا وہم ہے، کیونکہ امام مسلمؒ کا مقصد تو یہ ہے کہ یحیٰ نے یعنی یحیٰ بن سعید القطانؒ نے موسیٰ بن دینار کو ضعیف قرار دیا، یہ مقصد تو نہیں ہے کہ یحیٰ بن موسیٰ کو ضعیف قرار دیا۔
اور حسن بن عیسیٰؒ کہتے ہیں: مجھے عبداللہ بن مبارکؒ نے کہا: ”جب تم جریرؒ کی خدمت میں حاضر ہو، تو اس کا تمام علم (احادیث) لکھ لینا، مگر تین راویوں کی روایات عبیدہ بن معتب، سری بن اسماعیل اور محمد بن سالم کی روایات نہ لکھنا (کیونکہ یہ تینوں ضعیف اور متروک راوی ہیں)۔“
امام مسلم رحمہ اللہ نے کہا: اور اس کے مانند جو ہم نے ذکر کیا اہل حدیث کا کلام متہم راویوں میں اور ان کے عیوب بہت ہیں جس کے بیان کرنے سے کتاب لمبی ہو جائے گی اور جس قدر ہم نے بیان کیا وہ کافی ہے اس شخص کے لئے جو قوم کا مذہب سمجھ بوجھ جائے۔
اور حدیثوں کے اماموں نے راویوں کا عیب کھول دینا ضروری سمجھا اور اس بات کا فتویٰ دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا اس لئے کہ یہ بڑا اہم کام ہے۔ کیونکہ دین کی بات جب نقل کی جائے گی تو وہ کسی امر کے حلال ہونے کے لئے ہو گی یا حرام ہونے کے لئے یا اس میں کسی بات کا حکم ہو گا یا کسی بات کی ممانعت ہو گی یا کسی کام کی طرف رغبت دلائی جائے یا کسی کام سے ڈرایا جائے گا۔ بہرحال جب راوی سچا اور امانت دار نہ ہو پھر اس سے کوئی روایت کرے جو اس کے حال کو جانتا ہو اور وہ حال دوسرے سے بیان نہ کرے جو نہ جانتا ہو تو گنہگار ہو گا اور دھوکا دینے والا ہو گا عام مسلمانوں کو۔ اس لئے کہ بعض لوگ ان حدیثوں کو سنیں گے اور ان سب پر یا بعض پر عمل کریں گے اور شاید وہ سب یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہوں۔ (اور بعض نسخوں میں یہ ہے کہ ان میں کم یا بہت جھوٹی ہوں) جن کی اصل نہ ہو حالانکہ صحیح حدیثیں ثقہ لوگوں کی اور جن کی روایت پر قناعت ہو سکتی ہے کیا کم ہیں کہ بے اعتبار اور جن کی روایت پر قناعت نہیں ہو سکتی ان کی روایتوں کی احتیاج پڑے۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس قسم کی ضعیف حدیثیں اور مجہول سندیں نقل کی ہیں اور ان میں مصروف ہیں اور وہ جانتے ہیں ان کے ضعف کو، تو ان کی غرض یہ ہے کہ عوام کے نزدیک اپنا کثرت علم ثابت کریں اور اس لئے کہ لوگ کہیں سبحان اللہ! فلاں شخص نے کتنی زیادہ حدیثیں جمع کی ہیں۔ اور جس شخص کی یہ چال ہے اور اس کا یہ طریقہ ہے، اس کا علم، حدیث میں کچھ نہیں اور وہ جاہل کہلانے کا زیادہ سزاوار ہے عالم کہلانے سے۔
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں بعض ایسے لوگوں نے جنہوں نے جھوٹ موٹ اپنے تئیں محدث قرار دیا ہے، اسنا کی صحت اور سقم میں ایک قول بیان کیا ہے۔ اگر ہم بالکل اس کو نقل نہ کریں اور اس کا ابطال نہ لکھیں تو عمدہ تجویز ہو گی اور ٹھیک راستہ ہو گا اس لئے کہ غلط بات کی طرف التفات نہ کرنا اس کو مٹانے کے لئے اور اس کے کہنے والے کا نام کھودنے کے لئے بہتر ہے اور مناسب ہے جاہلوں کے لئے تاکہ ان کو خبر بھی نہ ہو اس غلط بات کی مگر اس وجہ سے کہ ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور یہ بات دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی بات پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں جو علما کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے، ہم نے اس قول کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد و بطلان اور خرابیاں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا اور اس کا انجام بھی نیک ہو گا اگر اللہ عزوجل چاہے۔
اور اس شخص نے جس کے قول سے ہم نے گفتگو شروع کی اور جس کے فکر اور خیال کو ہم نے باطل کہا یوں گمان کیا ہے کہ جو اسناد ایسی ہو جس میں فلاں عن فلاں ہو اور یہ بات معلوم ہو گئی کہ وہ دونوں ایک زمانہ میں تھے اور ممکن ہو کہ یہ حدیث ایک نے دوسرے سے سنی ہو اور اس سے ملا ہو مگر ہم کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس نے اس سے سنا ہے، نہ ہم نے کسی روایت میں اس بات کی تصریح پائی کہ وہ دونوں ملے تھے اور ان میں منہ در منہ بات چیت ہوئی تھی تو ایسی اسناد سے جو حدیث روایت کی جائے وہ حجت نہیں ہے جب تک یہ بات معلوم نہ ہو کہ کم سے کم وہ دونوں اپنی عمر میں ایک بار ملے تھے اور ایک نے دوسرے سے بات چیت کی تھی یا ایسی کوئی حدیث روایت کی جائے جس میں اس امر کا بیان ہو کہ ان دونوں کی ملاقات ایک یا زیادہ بار ہوئی تھی۔ اگر اس بات کا علم نہ ہو اور نہ کوئی حدیث ایسی روایت کی جائے جس سے ملاقات اور سماع کا ثبوت ہو تو ایسی حدیث نقل کرنا جس سے ملاقات کا علم نہ ہو ایسی حالت میں حجت نہیں ہے اور وہ حدیث موقوف رہے گی، یہاں تک کہ ان دونوں کا سماع تھوڑا یا بہت دوسری روایت سے معلوم ہو۔
اور یہ قول اسناد کے باب میں اللہ تجھ پر رحم کرے ایک نیا ایجاد کیا ہوا ہے جو پہلے کسی نے نہیں کہا نہ حدیث کے عالموں نے اس کی موافقت کی ہے اس لئے کہ مشہور مذہب جس پر اتفاق ہے اہل علم کا اگلے اور پچھلوں کا، وہ یہ ہے کہ جب کوئی ثقہ شخص کسی ثقہ شخص سے روایت کرے ایک حدیث کو اور ان دونوں کی ملاقات جائز اور ممکن ہو (باعتبار سن اور عمر کے) اس وجہ سے کہ وہ دونوں ایک زمانے میں موجود تھے اگرچہ کسی حدیث میں اس بات کی تصریح نہ ہو کہ وہ دونوں ملے تھے یا ان میں روبرو بات چیت ہوئی تھی تو وہ حدیث حجت ہے اور وہ روایت ثابت ہے۔ البتہ اگر اس امر کی وہاں کوئی کھلی دلیل ہو کہ درحقیقت یہ راوی دوسرے راوی سے نہیں ملا یا اس سے کچھ نہیں سنا تو وہ حدیث حجت نہ ہو گی لیکن جب تک یہ امر مبہم رہے (یعنی گول مول اور کوئی دلیل نہ سننے اور نہ ملنے کی نہ ہو) تو صرف ملاقات کا ممکن ہونا کافی ہو گا اور وہ روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔
پھر جس شخص نے یہ قول نکالا ہے یا اس کی حمایت کرتا ہے اس سے یوں گفتگو کریں گے کہ خود تیرے ہی سارے کلام سے یہ بات نکلی کہ ایک ثقہ شخص کی روایت دوسرے ثقہ شخص سے حجت ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے۔ پھر تو نے خود ایک شرط بعد میں بڑھا دی کہ جب یہ بات معلوم ہو جائے کہ وہ دونوں اپنی عمر میں ایک بار ملے تھے یا زیادہ اور ایک نے دوسرے سنا تھا۔ اب اس شرط کا ثبوت کسی ایسے شخص کے قول سے پانا ہے جس کا ماننا ضروری ہو۔ اگر ایسا قول نہیں ہے تو اور کوئی دلیل اپنے دعوے پر لانا۔
اگر وہ یہ کہے کہ اس باب میں سلف کا قول ہے یعنی اس شرط کے ثبوت کے لئے تو کہا جائے گا کہاں ہے؟ لا! پھر نہ اس کو کوئی قول ملے گا اور نہ کسی اور کو۔ اور اگر وہ اور کوئی دلیل قائم کرنا چاہے تو پوچھیں گے وہ دلیل کیا ہے؟
پھر اگر وہ شخص یہ کہے: میں نے یہ مذہب اس لئے اختیار کیا ہے کہ میں نے حدیث کے تمام اگلے اور پچھلے راویوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے حدیث روایت کرتے ہیں حالانکہ اس ایک نے دوسرے کو دیکھا ہے نہ اس سے سنا تو جب میں نے دیکھا کہ انہوں نے جائز رکھا ہے مرسل کو روایت کرنا بغیر سماع کے اور مرسل روایت ہمارے اور علم والوں کے نزدیک حجت نہیں ہے تو احتیاج پڑی مجھ کو راوی کے سماع دیکھنے کی جس کو وہ روایت کرتا ہے دوسرے سے۔ پھر اگر مجھے کہیں ذرا بھی ثابت ہو گیا کہ اس نے سنا ہے دوسرے راوی سے تو اس کی تمام روایتیں اس سے درست ہو گئیں۔ اگر بالکل مجھے معلوم نہ ہوا کہ اس نے اس سے سنا ہے تو میں روایت کو موقوف رکھوں گا اور میرے نزدیک وہ روایت حجت نہ ہو گی اس لئے کہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا (دلیل ہوئی مخالف کی۔ اب اس کا جواب آگے مذکور ہوتا ہے)۔
تو اس سے کہا جائے گا اگر تیرے نزدیک حدیث کو ضعیف کرنے کی اور اس کو حجت نہ سمجھنے کی علت صرف ارسال کا ممکن ہونا ہے (جیسے اس نے خود کہا کہ جب سماع ثابت نہ ہو تو وہ روایت حجت نہ ہو گی کیونکہ ممکن ہے اس کا مرسل ہونا) تو لازم آتا ہے کہ تو کسی اسناد معنعن کو نہ مانے جب تک اول سے لے کر آخر تک اس میں تصریح نہ ہو سماع کی (یعنی ہر راوی دوسرے سے یوں روایت کرے کہ میں نے اس سے سنا) مثلاً جو حدیث ہم کو پہنچی ہشام کی روایت سے، اس نے اپنے باپ عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے جیسے ہم اس بات کو بالیقین جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے باوجود اس کے احتمال ہے کہ اگر کسی روایت میں ہشام یوں نہ کہے کہ میں نے عروہ سے سنا ہے یا عروہ نے مجھے خبر دی (بلکہ صرف «عن عروه» کہے) تو ہشام اور عروہ کے بیچ میں ایک اور شخص ہو جس نے عروہ سے سن کر ہشام کو خبر دی ہو اور خود ہشام نے اپنے باپ سے اس روایت کو نہ سنا ہو لیکن ہشام نے اس کو مرسلاً روایت کرنا چاہا اور جس کے ذریعہ سے سنا اس کا ذکر مناسب نہ جانا۔ اور جیسے یہ احتمال ہشام اور عروہ کے بیچ میں ہے، ویسے ہی عروہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک اسناد میں جس میں سماع کی تصریح نہیں اگرچہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ ایک نے دوسرے سے بہت سی روایتیں سنی ہیں۔ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ بعض روایتیں اس سے نہ سنی ہوں بلکہ کسی اور کے ذریعہ سے سن کر اس کو مرسلاً نقل کیا ہو پر جس کے ذریعہ سے سنا اس کا نام نہ لیا اور کبھی اس اجماع کو رفع کرنے کے لیے اس کا نام بھی لے دیا اور ارسال کو ترک کیا۔
امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ احتمال جو ہم نے بیان کیا (صرف فرضی اور خیالی نہیں ہے) بلکہ موجود ہے حدیث میں اور جاری ہے بہت سے ثقہ محدثین کی روایتوں میں۔ ہم تھوڑی سی ایسی روایتیں بیان کرتے ہیں اللہ چاہے تو ان سے دلیل پوری ہو گی بہت سی روایتوں پر۔ پہلی روایت وہ ہے جو ایوب سختیانی اور ابن مبارک اور وکیع اور ابن نمیر اور ایک جماعت نے سوائے ان کے ہشام سے نقل کی، اس نے اپنے باپ عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ میں خوشبو لگاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولتے وقت اور احرام باندھتے وقت جو سب سے عمدہ مجھ کو ملتی۔ اسی روایت کو بعینہ لیث بن سعد اور داؤد عطار اور حمید بن الاسود اور وہیب بن خالد اور ابواسامہ نے ہشام سے روایت کیا۔ ہشام نے کہا: خبر دی مجھ کو عثمان بن عروہ نے، اس نے عروہ سے، اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
دوسری روایت ہشام کی ہے، اپنے باپ عروہ سے، اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میری طرف جھکا دیتے۔ میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیتی حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔ اسی روایت کو بعینہ امام مالک رحمہ اللہ نے زہری سے روایت کیا ہے۔ اس نے عروہ سے، اس نے عمرہ سے، اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
تیسری روایت وہ ہے جو زہری اور صالح بن ابی حسان نے ابوسلمہ سے نقل کیا اس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے اور آپ روزہ دار ہوتے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے اس بوسے کی حدیث کو یوں روایت کیا خبر دی مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے، ان کو خبر دی عمر بن عبدالعزیز نے ان کو خبر دی عروہ نے ان کو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بوسہ لیتے اور آپ روازہ دار ہوتے۔
چوتھی روایت وہ ہے جو سفیان بن عیینہ وغیرہ نے عمرو بن دینار سے کی، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو کھلایا گھوڑوں کا گوشت اور منع کیا پالتو گدھوں کے گوشت سے۔ اسی حدیث کو روایت کیا حماد بن زید نے عمرو سے، انہوں نے محمد بن علی (یعنی امام باقر) سے، انہوں نے جابر سے (تو حماد بن زید نے عمرو بن دینار اور جابر کے بیچ میں ایک واسطہ اور نقل کیا محمد بن علی کا جو پہلی اسناد میں نہیں) اور اسی قسم کی حدیثیں بہت ہیں جن کا شمار کثیر ہے اور جتنی ہم نے بیان کیں وہ سمجھنے والوں کے لیے کافی ہیں۔
پھر جب علت اس شخص کے نزدیک جس کا قول ہم نے اوپر بیان کیا حدیث کی خرابی اور توہیں کی یہ ہوئی کہ ایک راوی کا سماع جب دوسرے راوی سے معلوم نہ ہو تو ارسال ممکن ہے تو اس کے قول کے بموجب اس کو لازم آتا ہے ترک کرنا حجت کا ان روایتوں کے ساتھ جن کے راوی کا سماع دوسرے سے معلوم ہو چکا ہے (لیکن خاص اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں) البتہ اس شخص کے نزدیک صرف وہی روایت حجت ہو گی جس میں سماع کی تصریح ہے کیوں کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہیں کہ حدیث روایت کرنے والے اماموں کا حال مختلف ہوتا ہے کبھی تو وہ ارسال کرتے اور جس سے انہوں نے سنا ہو اس کا نام نہیں لیتے اور کبھی خوش ہوتے اور حدیث کی پوری اسناد جس طرح سے انہوں نے سنا ہے، بیان کر دیتے پھر اگر ان کو اتار ہوتا تو اتار بتلاتے اور جو چڑھاؤ ہوتا چڑھاؤ بتلاتے جیسے ہم اوپر صاف بیان کر چکے ہیں۔
اور ہم نے سلف کے اماموں میں سے جو حدیث کو استعمال کرتے تھے اور اسناد کی صحت اور سقم کو دریافت کرتے تھے جیسے ابوب سختیانی اور ابن عون اور مالک بن انس اور شعبہ بن حجاج اور یحییٰ بن سعید قطان اور عبدالرحمٰن بن مہدی اور جو ان کے بعد ہیں کسی کو نہیں سنا کہ وہ اسناد میں سماع کی تحقیق کرتے ہوں جیسے یہ شخص دعویٰ کرتا ہے جس کا قول اوپر ہم نے بیان کیا۔ البتہ جنہوں نے ان میں سے راویوں کے سماع کی تحقیق کی ہے تو وہ ان راویوں کے جو مشہور ہیں تدلس میں۔ اس وقت بے شک ایسے راویوں کے سماع سے بحث کرتے ہیں اور اس کی دریافت کرتے ہیں تاکہ ان سے تدلیس کا مرض دور ہو جائے لیکن سماع کی تحقیق اس راوی میں جو مدلس نہ ہو جس طرح اس شخص نے بیان کیا تو یہ ہم نے کسی امام سے نہیں سنا ان اماموں میں سے جن کا ذکر ہم نے کیا اور جن کا نہیں کیا۔
اس قسم کی روایت میں سے عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے (جو خود صحابی ہیں) انہوں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور روایت کی ہے حذیفہ بن الیمان اور ابومسعود (عقبہ بن عمرو انصاری بدری) سے، ہر ایک سے ایک ایک حدیث کو جس کو انہوں نے مسند کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک، مگر ان روایتوں میں اس بات کی تصریح نہیں کہ عبداللہ بن یزید نے سنا ان دونوں سے (یعنی حذیفہ اور ابومسعود سے سنا) اور نہ کسی روایت میں ہم نے یہ بات پائی کہ عبداللہ، حذیفہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہم سے روبرو ملے اور ان سے کوئی حدیث سنی اور نہ کہیں ہم نے پایا کہ عبداللہ نے ان دونوں کو دیکھا کسی خالص روایت میں (مگر چونکہ عبداللہ خود صحابی تھے) اور اس کا سن اتنا تھا کہ ملاقات ان کی حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ سے ممکن ہے اس لیے روایت عن کے ساتھ محمول ہے اتصال پر تو صرف امکان ملاقات کافی ہوا جیسے امام مسلم کا مذہب ہے اور کسی علم والے سے نہیں سنا گیا نہ اگلے لوگوں سے، نہ ان سے جن سے ہم ملے ہیں کہ انہوں نے طعن کیا ہو ان دونوں حدیثوں میں جن کو عبداللہ نے روایت کیا حذیفہ اور ابی مسعود رضی اللہ عنہما سے کہ یہ ضعیف ہیں بلکہ یہ حدیثیں اور جو ان کے مشابہ ہیں صحیح حدیثوں میں سے ہیں اور قوی ہیں ان اماموں کے نزدیک جن سے ہم ملے ہیں اور وہ ان کا استعمال جائز رکھتے ہیں اور ان سے حجت لیتے ہیں حالانکہ یہی حدیثیں اس شخص کے نزدیک جس کا قول اوپر ہم نے بیان کیا (جو ثبوت ملاقات شرط کرتا ہے) واہی ہیں اور بےکار ہیں جب تک سماع عبداللہ کا حذیفہ اور ابو مسعود سے متحقق نہ ہو۔
اور اگر ہم سب ایسی حدیثوں کو، جو اہل علم کے نزدیک صحیح ہیں اور اس شخص کے نزدیک ضعیف ہیں، بیان کریں تو ان کا ذکر کرتے کرتے ہم تھک جائیں گے (اس قدر کثرت سے ہیں) لیکن ہم چاہتے ہیں کہ تھوڑی ان میں سے بیان کریں تاکہ باقی کے لئے وہ نمونہ ہوں۔
ابو عثمان نہدی (عبدالرحمٰن بن مل جو ایک سو تیس برس کے ہو کر مرے) اور ابورافع صائغ (نقیع مدنی) ان دونوں نے زمانہ جاہلیت کا پایا ہے (لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر نہ ہوئی ایسے لوگوں کو مخضرم کہتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے بدری صحابیوں سے ملے ہیں اور روایتیں کی ہیں۔ پھر ان سے ہٹ کر اور صحابہ سے یہاں تک کہ ابوہریرہ اور ابن عمر اور ان کے مانند صحابیوں سے، ان میں سے ہر ایک نے ایک حدیث ابی بن کعب سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حالانکہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوئی کہ ان دونوں نے ابی بن کعب کو دیکھا یا ان سے کچھ سنا۔
اور ابوعمرو شیبانی (سعد بن ایاس) نے جس نے جاہلیت کا زمانہ پایا ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جوان مرد تھا اور ابومعمر عبداللہ بن سنجرہ نے ہر ایک نے ان میں سے دو دو حدیثیں ابومسعود انصاری سے روایت کیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبید بن عمیر نے، ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور عبید پیدا ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور قیس بن ابی حازم نے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے ابومسعود انصاری سے تین حدیثیں روایت کیں اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی نے جس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہا۔ ایک حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور ربعی بن حراش نے عمران بن حصین سے دو حدیثیں روایت کیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ابوبکرہ سے ایک حدیث، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ربعی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ان سے روایت کی ہے اور نافع بن جبیر بن مطعم نے ابوشریح خزاعی سے ایک حدیث روایت کی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور نعمان بن ابی عیاش نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے تین حدیثیں روایت کیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عطاء بن یزید لیثی نے تمیم داری سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سلیمان بن یسار نے رافع بن خدیج سے ایک حدیث روایت کی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور عبید بن عبدالرحمٰن حمیری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی حدیثیں روایت کیں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
پھر یہ سب تابعین رحمہ اللہ علیہم جنہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا، ان کا سماع ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے کسی معین روایت میں معلوم نہیں ہوا، نہ ملاقات ہی ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ روایت سے ظاہر ہوئی باوجود اس کے یہ سب روایتیں حدیث اور روایت کے پہچاننے والوں کے نزدیک (یعنی ائمہ حدیث کے نزدیک) صحیح السند ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ کسی نے ان میں سے کسی روایت کو ضعیف کہا ہو یا اس میں سماع کی تلاش کی ہو، اس لیے کہ سماع ممکن ہے اس کا انکار نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دونوں ایک زمانہ میں موجود تھے اور یہ قول جس کو اس شخص نے نکالا ہے جس کا بیان اوپر ہم نے کیا حدیث کے ضعیف ہونے کے لئے اس علت کی وجہ سے مذکور ہوئی اس لائق بھی نہیں کہ اس طرف التفات کریں یا اس کا ذکر کریں، اس لئے کہ یہ قول نیا نکالا ہوا ہے اور غلط اور فاسد ہے کوئی اہل علم سلف میں سے اس کا قائل نہیں ہوا۔ اور جو لوگ سلف کے بعد گزرے انہوں نے اس کا انکار کیا تو اس سے اس کے رد کرنے کی حاجت نہیں۔ جب اس قول کی اور اس کے کہنے والے کی یہ وقعت ہے جیسے بیان ہوئی اور اللہ مدد کرنے والا ہے اس بات کو رد کرنے کے لئے جو عالموں کے مذہب کے خلاف ہے اور اسی پر بھروسا ہے۔ تمام ہوا مقدمہ مسلم کا۔ اب شروع ہوتا ہے بیان ایمان کا جو اصل ہے تمام اعمال کا اور جس پر موقوف ہے نجات آخرت کے عذاب سے۔