ابو اسامہ نے سعید بن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، نیز معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، اسی طرح جریر نے سلیمان تیمی سے خبر دی، ان سب (ابن ابی عروبہ، ہشام اور سلیمان) نے قتادہ سے اسی (سابقہ) حدیث کے مانند روایت کی، البتہ قتادہ سے سلیمان اور ان سے جریر کی بیان کردہ حدیث میں یہ اضافہ ہے: ” جب امام پڑھے تو تم غور سے سنو۔“ اور ابو عوانہ کے شاگرد کامل کی حدیث کے علاوہ ان میں سے کسی کی حدیث میں: ”اللہ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے فرمایا ہے: ” اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابو اسحاق نے کہا: ابو نضر کے بھانجے ابو بکر نے اس حدیث کے متعلق بات کی تو امام مسلم نے کہا: آپ کو سلیمان سے بڑا حافظ چاہیے؟ اس پر ابو بکر نے امام مسلم سے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث؟ پھر (ابو بکر نے) کہا: وہ صحیح ہے، یعنی (یہ اضافہ کہ) جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو۔ امام مسلم نے (جوابا) کہا: وہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ تو ابو بکر نے کہا: آپ نے اسے یہاں کیوں نہ رکھا (درج کیا)؟ (امام مسلم نے جواباً) کہا: ہر وہ چیز جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اسے یہاں نہیں رکھا۔ یہاں میں نے صرف ان (احادیث) کو رکھا جن (کی صحت) پر انہوں (محدثین) نے اتفاق کیا ہے۔
امام صاحب نے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ بیان کیا۔ کہ جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو، اور ان میں سے کسی کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوایا ہے، سَمِعَ اللُّٰہ لِمَنْ حَمِدَہ، صرف ابو کامل اکیلا ہی ابو عوانہ سے یہ الفاظ نقل کرتا ہے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں، ابو نضر کے بھانجے، ابوبکر نے اس حدیث پر بحث کی تو امام مسلم نے جوب دیا آپ کو سلیمان سے زیادہ حافظ مطلوب ہے، (یعنی سلیمان حفظ و ضبط میں پختہ ہے، اس لیے اس کا اضافہ مقبول ہے) تو ابوبکر نے امام مسلم سے پوچھا، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اِذَا قَرأَ فَانْصِتُوْا (جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو)، کیسی ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا، وہ صحیح ہے اورمیں اس کو صحیح سمجھتا ہوں تو ابوبکر نے پوچھا تو آپ نے اسے اپنی کتاب میں بیان کیوں نہیں کیا؟ امام صاحب نے جواب دیا: ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اس کو یہاں نقل نہیں کیا، یہاں تو میں نے ان ہی کی احادیث کو بیان کیا ہے، جن کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 905
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1)(وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) جب امام پڑھے تم خاموش رہو کا تعلق سورہ فَاتِحَہ کے بعد والی قرآءت سے ہے کیونکہ سورۃ فاتحہ کے بغیر تو نماز نہیں ہوتی اس طرح دونوں حدیثوں پر عمل ہو جاتا ہے کہ مقتدی جہری نمازوں میں جب امام قرآءت کرتا ہے تو اس کے پیچھے صرف فاتحہ چپکے چپکے پڑھے گا اور بعد والی قرآءت پوری توجہ سے سنے گا خود نہیں پڑھے گا اور سری نمازوں میں چونکہ قرآءت بلند نہیں ہوتی اس لیے امام کی قرآءت سننے کا احتمال نہیں ہوتا۔ اس لیے وہاں مقتدی اپنی قرآءت کرے گا۔ (2) امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) کو صحیح تسلیم کیا ہے لیکن چونکہ اس کی صحت پر اتفاق نہیں اس لیے اس کو صحیح مسلم میں درج نہیں کیا، جس سے معلوم ہوا امام مسلم اپنی صحیح میں صرف ان روایات کو بیان کرتے ہیں، جوتمام آئمہ محدثین کے مسلمہ قواعد وضوابط کے مطابق صحیح ہیں اور اس لحاظ سے ان سب کی صحت پر سب کا اتفاق ہونا چاہیے۔ (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ (وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) اور اسی طرح سلیمان کی حدیث کے ان الفاظ کی صحت کے بارے میں آئمہ حدیث میں اختلاف ہے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ سجستانی رحمۃ اللہ علیہ، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو علی نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ کو درست قرار نہیں دیتے، ان کے نزدیک (هَذِهِ اللَّفْظَةُ غَيْرُ مَحْفُوظَةٍ) قتادہ کے تمام شاگرد ان الفاظ میں سلیمان حیمی کی مخالفت کرتے ہیں۔ (4) تشہد کے کلمات مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ بیان کیے ہیں امام مسلم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تشہد نقل کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ نقل نہیں کیے۔ اپنی جگہ تمام ہی صحیح ہیں اور کسی کو بھی پڑھا جا سکتا ہے افضل کے بارے میں آئمہ میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور اہل حدیث اور جمہور فقہاء کے نزدیک ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما والا تشہد افضل ہے کیونکہ سب سے زیادہ صحیح ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیوں کے نزدیک ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما والا تشہد افضل ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف تشہد افضل ہے کیونکہ انھوں نے یہ تشہد منبر پر سکھایا تھا لیکن ظاہر ہے موقوف کو مرفوع پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنا سنت ہے اور اسلام والا تشہد واجب ہے جمہور محدثین کے نزدیک دونوں ہی واجب ہیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، پہلے کو واجب اور دوسرے کو فرض قراردیتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک دونوں سنت ہیں۔