بکیر بن مسمار نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے کہ ان کےبیٹےعمر (بن سعد) ان کے پاس آئے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا: میں اس سوار کے شرسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ اترے اور ان (حضرت سعد رضی اللہ عنہ) سے کہا: آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ سلطنت کے بارے میں باہم لڑرہے ہیں (آپ کبھی اپناحصہ مانگیں) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا: خاموش رہو!میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے، "اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام (گوشہ نشیں) ہو۔
عامر رحمۃ اللہ علیہ بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اونٹوں کے پاس تھے کہ ان کےبیٹےعمر(بن سعد)ان کے پاس آئے جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا: میں اس سوار کے شرسے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں وہ اترے اور ان(حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے کہا:آپ اپنے اونٹوں اور بکریوں کے پاس رہائش پذیر ہو گئے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ سلطنت کے بارے میں باہم لڑرہے ہیں (آپ کبھی اپناحصہ مانگیں) حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سینے پر ضرب لگائی اور کہا:خاموش رہو!میں نے رسول االلہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے،"اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام(گوشہ نشیں)ہو۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7432
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، جب فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو، لوگ دینی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں اور ان پر وعظ و نصیحت کار گرنہ ہوتو ایسی صورت میں، سب سے الگ تھلگ ہوکر اللہ کی عبادت اور ذکرو فکر میں مشغول رہنا، اس سے بہتر ہے کہ انسان خود بھی مفادات کی جنگ میں شریک ہوجائے، ہاں اگر وہ لوگوں کے درمیان رہ کردار ادا کرسکتا ہو، تو پھر ان کے درمیان رہنا بہتر ہے۔