داود نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: مکہ کی طرف جاتے ہوئے (راستے میں) میرا اور ابن صیاد کاساتھ ہوگیا۔اس نے مجھ سے کہا: میں کچھ ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو سمجھتے ہیں کہ میں دجال ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سناتھا: "اس کے بچے نہیں ہوں گے"؟کہا: میں نے کہا: کیوں نہیں! (سناتھا۔) اس نے کہا: میرے بچے ہوئے ہیں۔کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے نہیں سنا تھا: "وہ (دجال) مدینہ میں داخل ہوگا اور نہ مکہ میں"؟میں نے کہا: کیوں نہیں!اس نے کہا: میں مدینہ کے اندر پیدا ہوا۔اور اب مکہ کی طرف جارہا ہوں۔انھوں نے کہا: پھر اپنی بات کے آخر میں اس نے مجھ سے کہا: دیکھیں!اللہ کی قسم!میں اس (دجال) کی جائے پیدائش، اس کے رہنے کی جگہ اور وہ کہاں ہے سب جانتا ہوں۔ (اس طرح) اس نے (اپنی حیثیت کے بارے میں) مجھے الجھا دیا۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ جاتے ابن صیاد کا ساتھی بنا تو اس نے مجھے کہا، ہاں مجھے لوگوں سے تکلیف پہنچی ہے، وہ خیال کرتے ہیں، میں دجال ہوں، کیا تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا۔" کہ اس کی اولاد نہیں ہو گی۔"میں نے کہا، کیوں نہیں(میں نے سنا ہے)اس نے کہا تو میری تو اولاد ہے، کیا تونے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا۔"وہ مدینہ میں داخل ہو گا نہ مکہ میں۔"میں نے کہا، ضرور سنا ہے، اس نے کہا میں مدینہ میں پیدا ہوا ہوں، اور اب میں مکہ جانا چاہتا ہوں، پھر اس نے اپنی باتوں کے آخر میں مجھے کہا،ہاں، اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں، اس کا مولد (جائے پیدائش) کہاں ہے اور اب وہ کہاں ہے، اس طرح اس نے مجھے شک و شبہ میں ڈال دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7348
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: معلوم ہوتا ہے، ابن صیاد ہی دجال اکبر ہے، آخری زمانہ میں جب وہ اپنی اصلیت میں ظاہر ہوگا تو پھر نہ مدینہ میں داخل ہو سکے گا اور نہ مکہ میں، اور نہ اس کی اولاد ہوگی، اپنے ابتدائی دور میں اس کے اندر دجل وفریب کا ملکہ تھا، لیکن ابھی پوری صفات کا ظہور نہ ہواتھا، اس لیے وہ شک وشبہ اور التباس میں ڈالنے والی باتیں کرتا تھا اور اچانک وہ غائب ہوگیا۔