جریر نےاعمش سے، انھوں نے ابو وائل سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم چند لڑکوں کے پاس سے گزرے، ان میں ابن صیاد بھی تھا، سب بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھ گیا، تو ایسا لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "تیرے ہاتھ خاک آلودہوں!کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟"اس نے کہا: نہیں۔بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کو قتل کردوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر یہ وہی ہے جو تمہارا گمان ہے تو تم اس کو قتل نہیں کرسکوگے۔"
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے چنانچہ ہمارا گزر بچوں کے پاس سے ہوا جن میں ابن صیاد بھی تھا تو بچے بھاگ گئے اور ابن صیاد بیٹھا رہا۔ سو گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے فعل کو پسند نہ کیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا:"تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟" تو اس نے کہا نہیں، بلکہ کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ سو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی،اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجیے تاکہ میں اس کو قتل کردوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر یہ وہی ہے جو تم سمجھتے ہو۔ یعنی دجال ہے تو تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔"(کیونکہ دجال کو حضرت عیسیٰ نے قتل کرنا ہے)
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7344
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ابن صیاد جس کانام صاف ہے، اس کی ولادت اور ہیئت کذائی عام بچوں سے الگ تھلگ تھی اور بعض صفات، دجال کی صفات سے ملتی جلتی تھیں، اس لیے بعض صحابہ کو اس سے دجال ہونے کا شبہ پڑتا تھا اور آپ نے اس کو قتل اس لیے نہیں کروایا کہ وہ یہودی تھا اور یہودیوں کے ساتھ آپ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ امن و سلامتی سے رہیں گے، بعد میں ان کی ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کی بنا پر، ان کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا۔