سفیان نے ابو زناد سے، انھوں نے اعرج سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دوزخ اور جنت میں مباحثہ ہوا تو اس (دوزخ) نے کہا: میرے اندر جبار اور متکبر داخل ہوں گے۔اور اس (جنت) نے کہا: میرے اندر (اسباب دنیا ک اعتبار سے) ضعیف اور مسکین لوگ داخل ہوں گے۔اللہ عزوجل نے اس (دوزخ) سے کہا: تم میرا عذاب ہو، تمہارے ذریعے سے میں جنھیں چاہوں گا عذاب دوں گا۔یا شاید فرمایا: جنھیں چاہوں گا مبتلا کروں گا۔اور اس (جنت) سے کہا: تو میری رحمت ہے اور تمہارے ذریعے سے جس پرچاہوں گا رحم کروں گا اور تم دونوں کے لئے وہ مقدار ہوگی جو اس کو بھر دے گی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دوزخ اور جنت میں جھگڑا ہوا چنانچہ آگ نے کہا، مجھ میں سرکش اور متکبر لوگ داخل ہوں گے۔(تاکہ میں انہیں سبق سکھاؤں)اور جنت نے کہا، مجھ میں کمزور اور مسکین لوگ داخل ہوں گے (تاکہ میں ان کی شان و مقام بلند کروں) چنانچہ اللہ عزوجل جہنم کو فرمائے گا تو میرا عذاب ہے، تیرے ذریعہ میں جسے چاہوں گا،دکھ دوں گا، یا مصیبت پہنچاؤں گا اور جنت سے فرمائےگا تو میری رحمت ہے، تیرے ذریعہ میں جس پر چاہوں گا، رحمت نازل کروں گا اور تم میں سے ہر ایک کو بھردوں گا۔"
تحاجت الجنة والنار فقالت النار أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين وقالت الجنة ما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم قال الله تبارك و للجنة أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي وقال للنار إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي ولكل واحدة منهما ملؤها
اختصمت الجنة والنار إلى ربهما فقالت الجنة يا رب ما لها لا يدخلها إلا ضعفاء الناس وسقطهم وقالت النار يعني أوثرت بالمتكبرين فقال الله للجنة أنت رحمتي وقال للنار أنت عذابي أصيب بك من أشاء ولكل واحدة منكما ملؤها قال فأما الجنة فإن الله لا يظلم
احتجت النار والجنة فقالت هذه يدخلني الجبارون والمتكبرون وقالت هذه يدخلني الضعفاء والمساكين فقال الله لهذه أنت عذابي أعذب بك من أشاء وربما قال أصيب بك من أشاء وقال لهذه أنت رحمتي أرحم بك من أشاء ولكل واحدة منكما ملؤها
تحاجت النار والجنة فقالت النار أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين وقالت الجنة فما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم وعجزهم فقال الله للجنة أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي وقال للنار أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي ولكل واحدة منكم ملؤها فأما النار
احتجت الجنة والنار فقالت الجنة يدخلني الضعفاء والمساكين وقالت النار يدخلني الجبارون والمتكبرون فقال للنار أنت عذابي أنتقم بك ممن شئت وقال للجنة أنت رحمتي أرحم بك من شئت
تحاجت الجنة والنار فقالت النار أوثرت بالمتكبرين والمتجبرين وقالت الجنة فما لي لا يدخلني إلا ضعفاء الناس وسقطهم وغرتهم فقال الله للجنة إنما أنت رحمتي أرحم بك من أشاء من عبادي وقال للنار إنما أنت عذابي أعذب بك من أشاء من عبادي ولكل واحدة منكما ملؤها فأم
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7172
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنت اور دوزخ کا یہ مکالمہ یا مباحثہ حقیقی معنوں میں ہوگا، اللہ تعالیٰ ہر چیز کی زبان کو سمجھتا ہے، گویا زبان قال سے مباحثہ ہوگا، زبان حال سے نہیں اور جنت میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی، جو اہل دنیا کی نظر میں کم مرتبہ لوگ تھے، اگرچہ اللہ کے ہاں ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7172
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1171
1171- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جنت اور جہنم کے درمیان بحث ہوگئی تو اس نے کہا: مجھ سرکش اور متکبر لوگ داخل ہوں گے، تو دوسری نے (یعنی جنت نے) کہا: مجھ میں کمزور اور غریب لوگ داخل ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: ”تم میرا عذاب ہو تمہارے ذریعے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا، اور اس سے فرمایا: تم میری رحمت ہو تمہارے ذریعے میں جس پر چاہوں گا رحمت کروں گا۔“ سفیان کہتے ہیں: میرے خیال میں روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں ”تم میں سے ہر ایک بھر جائے گی۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1171]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت و جہنم کا وجود ہے، اس حدیث میں منکر ین آخرت کی تردید ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی نے جنت میں جانا ہے تو اللہ کی رحمت کے ساتھ جانا ہے، جہنم میں جانا ہے تو اللہ کے غضب کے ساتھ جانا ہے۔ اللہ ہمیں جہنم سے بچا کر جنت کا وارث بنائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1169
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7449
7449. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے میرے رب! اس کا کیا حال ہے کہ اس میں صرف کمزور لوگ اور گرے پڑے فقیر ہی داخل ہوں گے؟ دوذخ نے کہا:اے میرے رب! میں تو متکبرین کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ دوذخ سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوذخ کے لیے جو چاہے گا (موقع پر) پیدا کر دے گا پھر انہیں دوذخ میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی: ابھی اور بھی گنجائش ہے۔ تین بار ایسا ہوگا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا تووہ بھر جائے گی۔ اس کے کچھ حصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7449]
حدیث حاشیہ: یہ اللہ کے قدم رکھنا برحق ہے جس کی تفصیل اللہ ہی کو معلوم ہے اس میں کرید کرنا بدعت ہے اورتسلیم کرنا طریقہ سلف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7449
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4850
4850. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جنت اور دوزخ نے باہمی تکرار کی۔ دوزخ نے کہا: میں تو متکبروں اور ظالموں کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ جنت نے کہا: میرے اندر تو صرف کمزور اور ناتواں اور کم مرتبے والے لوگ داخل ہوں گے؟ اللہ تعالٰی نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ اور دوزخ سے کہا کہ تو میرا عذاب ہے، میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا سزا دوں گا۔ بہرحال ان دونوں کو بھرنا ضرور ہے۔ دوزخ تو اس وقت تک نہیں بھرے گی جب تک اللہ رب العزت اپنا قدم اس پر نہیں رکھے گا۔ جب وہ قدم رکھے گا تو اس وقت دوزخ بولے گی کہ بس، بس اور بس۔ پھر اس وقت یہ بھر جائے گی اور اس کا ایک حصہ دوسرے حصے سے لپٹ جائے گا۔ اللہ تعالٰی اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ لیکن جنت! تو بلاشبہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4850]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس سوال وجواب میں دوزخ نے متکبرین کا انداز اختیار کیا جبکہ جنت عاجزی اور انکسار کا اظہار کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ان دونوں کو بھرنا ضرورہے۔ اہل جنت جب جنت میں پہنچ جائیں گے تو جنت میں ابھی بہت سی جگہ خالی ہوگی، اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے وہاں بسا دے گا لیکن دوزخ کا بھرنے کے لیے اپنا قدم اس پر رکھ دے گا جس کی وجہ سے وہ بس، بس کہنے لگے گی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا کہ جہنم کو بھرنے کے لیے وہاں کسی مخلوق کو پیدا کرکے اس میں جھونک دے لیکن بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7449) اس مقام پر علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت خوبصورت بات کہی ہے فرماتے ہیں: جنت میں فالتو جگہ بھرنے کے لیے تواللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرکے وہاں انھیں بسا دے گا، لیکن جہنم میں بھی فالتو جگہ ہوگی۔ صحیح بخاری میں ایک جگہ پر ہے کہ اسے بھرنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا جبکہ صحیح بخاری کی دیگر روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا قدم رکھ دے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے راوی کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے جان بوجھ کر یہ انداز اختیار کیا ہے کہ ایک مقام پر اس کی غلطی کی نشاندہی کی ہے جبکہ دوسرے مقامات پر صحیح بات ذکر کی ہے۔ (منھاج السنة: 25/3) 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق جہنم کو بھرنے کے لیے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کرے گا، بلکہ اپنا قدم رکھ دے گا پھر وہ جہنم بس، بس کہہ اٹھے گی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4850
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7449
7449. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے اپنے رب کے پاس جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے میرے رب! اس کا کیا حال ہے کہ اس میں صرف کمزور لوگ اور گرے پڑے فقیر ہی داخل ہوں گے؟ دوذخ نے کہا:اے میرے رب! میں تو متکبرین کے لیے خاص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے۔ دوذخ سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعے سے میں جسے چاہوں گا عذاب دوں گا۔ تم دونوں میں سے ہر ایک کو بھرنا ہے۔ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوذخ کے لیے جو چاہے گا (موقع پر) پیدا کر دے گا پھر انہیں دوذخ میں ڈالا جائے گا۔ اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی: ابھی اور بھی گنجائش ہے۔ تین بار ایسا ہوگا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا تووہ بھر جائے گی۔ اس کے کچھ حصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7449]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جنت اور دوزخ کا جھگڑنا حقیقت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان میں شعور تمیز اور قوت گویائی پیدا فرمائے گا۔ ایسا کرنا صرف جنت یا دوزخ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پہاڑبھی حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تسبیح کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت ہے بلکہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن ہم اس تسبیح کو سمجھنے سے قاصر ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”ساتوں آسمان زمین اور جو (مخلوق) بھی ان میں ہے سب اس کی تسبیح کرتے ہیں بلکہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ “(بنی اسرائیل17۔ 44) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات رحمت کا اطلاق مخلوق پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: ”تو میری رحمت ہے“ اور جنت اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ اس رحمت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور جنت اللہ تعالیٰ کے مخلص اور نیکو کار بندوں کے بہت قریب ہے۔ ایک روایت میں ہے جنت میں بے شمار مخلوق کو داخل کرنے کے بعد بھی اس کی بہت سی جگہ بچ رہے گی تو اسے بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس وقت کوئی مخلوق پیدا فرمائے گا۔ اور اسے جنت کے باقی ماند ہ حصے میں ٹھہرائے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7384) نیز صحیح مسلم میں ہے۔ ”اللہ تعالیٰ جنت کو بھرنے کے لیے وہاں کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔ “(صحیح مسلم، الجنة ونعیمها، حدیث: 7175 (2846) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر میں بھی انھی الفاظ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو بھرنے کے لیے وہاں کوئی مخلوق پیدا کرےگا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4850) لیکن پیش کردہ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھرنے کے لیے کسی مخلوق کو پیدا کرے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے جہنم بھرنے کا قاعدہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ”حق بات یہ ہے اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھروں گا۔ جو تیری پیروی کریں گے۔ “(ص: 38۔ 84۔ 85) 3۔ اس آیت کریمہ کے پیش نظر علمائے امت نے مذکورہ حدیث صحیح بخاری کے متعلق دو مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔ علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری کی اس حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جو شخص گناہ گار نہ ہو اسے عذاب دینے میں کچھ حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر اسے عذاب دے تو عدل کے منافی نہیں وہ جو چاہے کر سکتا ہے لیکن ہمیں اس موقف سے اختلاف ہے کیونکہ ایسا کرنا اس کی شان کریمی کے خلاف ہے اس نے خود پر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔ (الأنعام: 54) اور دوسرے مقام پر فرمایا: ”اور تیرا رب (کسی پر ذرہ بھربھی) ظلم نہیں کرے گا۔ “(الکهف: 1849) البتہ انعام کی کچھ اور بات ہے وہ نافرمان پر کیا جا سکتا ہے لیکن بے گناہ کو عذاب دینا کرم الٰہی کے لائق نہیں۔ دوسرا موقف ہے کہ حدیث کے راویوں سے خطا ہوئی ہے۔ انھوں نے معاملہ الٹ کر کے بیان کیا ہے اصل واقعہ یہ ہے کہ جنت کو بھرنے کے لیے موقع پر اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کو پیدا کرے گا۔ لیکن راویوں نے سہواً جنت کے بجائے جہنم کا ذکر کر دیا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (حاوي الأرواح: 295) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا دفاع کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر یہ حدیث بیان کی ہے کہ جنت کے لیے اپنی مخلوق پیدا کرے گا جبکہ مذکورہ روایت اس کے برعکس ہے کہ جہنم کے لیے موقع پر کوئی مخلوق پیدا کرے گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد راویوں کے وہم کی نشاندہی کرنا ہے جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ جب کسی راوی سے غلط بیانی ہو جائے تو صحیح روایات کو بیان کر کے اس کی غلطی کو واضح کرتے ہیں اس مقام پر بھی ایسا ہوا ہے۔ (منهاج السنة: 25/3) 4۔ ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ مذکورہ روایت میں قلب واقع ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف رسول بھیج کر اتمام حجت کرتا ہے پھر اصرار و انکار پر قیامت کے دن انھیں عذاب دے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں۔ “(بني إسرائیل: 17۔ 15) نیز فرمایا: ”جب جہنم میں کوئی گروہ پھینکا جائے تو دوزخ کے محافظ ان سے پوچھیں گے: کیا تمھارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں! یقیناً ڈرانے والا تو ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا کہ اللہ نے کچھ نہیں اتارا تم ہی بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ “(الملك: 67۔ 6۔ 9) بہر حال راویوں کی طرف وہم کی نسبت کرنا اس موقف سے کہیں آسان ہے کہ اسے اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ کی شان کریمی پر حرف آئے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7449