منصور نے ابو ضحیٰ (مسلم بن صحیح) سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی، کہا: ہم حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان (اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ (کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو (واعظ) آیا ہوا ہے، وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی (اللہ کی) نشانی آئے گی اور (یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے، لوگو! اللہ سے ڈرو، تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو، وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا، وہ کہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ (اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو (بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا، یہ کہتا ہے: اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے: میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: "اے اللہ! (ان پر) یوسف علیہ السلام کےسات سالوں جیسے سات سال (بھیج دے۔) " (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا، یہاں تک کہ ان (مشرک) لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں، اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں، آپ کی قوم (قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا: " آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔ (اور وہ) لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔یہ دردناک عذاب ہوگا، سے لے کر اس کے فرمان: "نے شک تم (کفر میں) لوٹ جانے والے ہوگئے"تک۔ (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: کیا آخرت کا عذاب ہٹایا جائے گا؟"جس دن ہم تم پر بڑی گرفت کریں گے (اس دن) ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔"وہ گرفت بدر کے دن تھی۔اب تک دھوئیں کی نشانی گرفت اور چمٹ جانےوالا عذاب (بدر میں شکست فاش اور قتل) اور روم (کی فتح) کی نشانی (سب) آکر گذر چکی ہیں۔
امام مسروق بیان کرتے ہیں،ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان(اپنے بستر یا بچھونے پر) لیٹے ہوئے تھے تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا:ابو عبدالرحمان!ابواب کندہ(کوفہ کا ایک محلہ) میں ایک قصہ گو(واعظ) آیا ہوا ہے،وہ وعظ کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ دھوئیں والی(اللہ کی)نشانی آئے گی اور(یہ د ھواں) کافروں کی روحیں قبض کرلے گا اور مومنوں کو یہ زکام جیسی کیفیت سے دو چار کرے گا۔حضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کر بیٹھ گئے،لوگو! اللہ سے ڈرو،تم میں سے جو شخص کوئی چیز جانتا ہو،وہ اتنی ہی بیان کرے جتنی جانتاہو اور جو نہیں جانتا،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔بے شک وہ(اللہ تعالیٰ) تم میں سے اس کو(بھی) زیادہ جاننے والاہے۔جو اس بات کے بارے میں جو وہ نہیں جانتا،یہ کہتا ہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔اللہ عزوجل نے ا پنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا؛"کہہ دیجئے:میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں۔"(سورہ ص:86) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی دین سے روگردانی دیکھی تو آپ نے (دعا کرتے ہوئے) فرمایا:"اے اللہ!(ان پر) یوسف ؑ کےسات سالوں جیسے سات سال(بھیج دے۔)"(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو انھیں (قحط کے) ایک سال نے آلیا جس نے ہر چیز کاصفایاکرایا،یہاں تک کہ ان(مشرک)لوگوں نے بھوک سے چمڑے اور مردار تک کھائے۔ان میں سے کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے دھوئیں کے جیسی ایک چیز چھائی ہوئی نظر آتی۔چنانچہ ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ آئے ہیں،اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں،آپ کی قوم(قحط اور بھوک سے) ہلاک ہورہی ہے۔ان کےلیے اللہ سے دعا کریں۔اللہ عزوجل نے فرمایا:" آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان ایک نظر آنے والے دھوئیں کو لے آئے گا۔جولوگوں پر چھا جائے گا،جوالمناک عذاب ہوگا،(کہیں گے) اے ہمارے رب!ہم سے اس عذاب کو دور کر دے،ہم ایمان لے آئیں گے،اس وقت انھیں نصیحت کہاں کارگرہوگی،حالانکہ ان کے پاس رسول مبین(کھول کر بیان کرنے والا)آچکا ہے،پھر انہوں نے اس سے منہ موڑا اور کہنے لگے،یہ تو سکھایا پڑھایا دیوانہ ہے۔"ہم تھوڑی دیر عذاب ہٹادیں گے،مگر تم پھر وہی کروگے جوپہلے کرتے رہے۔"(دخان آیت نمبر۔10تا 15)حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،کیا آخرت کا عذاب ہٹادیا جائےگا؟جس دن ہم سخت گرفت کریں گے،پھر انتقام لے کر رہیں گے۔"(آیت نمبر 16)۔سو پکڑے سے مراد،بدر کادن ہے،دھوئیں والی نشانی گزرچکی ہے،اس طرح پکڑ،لزام(قتل وقید) وروم کی فتح گزرچکی ہے۔"