ابو سعید اشج نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے عبد اللہ بن ادریس سے سنا وہ کہہ رہے تھے، میں نے اعمش سے سنا وہ اس روایت کو عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مرہ سے اور وہ مسروق سے اور وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے درختوں میں (کھجور کی) ایک شاخ کا سہارا لیے ہوئے (چلے جارہے) تھے پھر اعمش سے ان سب کی حدیث کے مطابق بیان کیا اور انھوں نے (بھی) اپنی روایت میں مشہور اور متواتر قرآءت کے مطابق "وَمَا أُوتِیتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا "بیان کیا۔ ان روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرث (کھیت) اور نخل (کھجورکے درختوں) کے درمیان جارہے تھے۔صحیح بخاری کی ایک روایت میں حرث ہے۔ (حدیث 4721۔) جبکہ دوسری روایت میں"خرب" (اجازجگہ) ہے۔ (حدیث: 125) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھیت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے جارہے تھے۔مدینہ کے عام کھیتوں کی طرح کھجور کے باغ میں تھا اور اب اس میں کچھ کاشت نہیں ہو رہاتھا اجڑاہوا اور ناہموار ہونے کی وجہ سے آپ اس کے اندرکھجور کی شاخ کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روح کے متعلق یہودیوں سے پوچھ کر قریش مکہ نے بھی سوال کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی یہی جواب دیا تھا (جمع المومنین حدیث 3140) مدینہ میں جب یہود نے خود سوال کیا تو چونکہ وہ اہل کتاب تھے اس لیے یہ امکان تھا کہ ان کی کتاب میں یہی بات کسی اور رنگ میں کہی گئی ہو اور وہ انداز کے اس اختلاف کو اپنے لیےدلیل بنانے کی کو شش کریں اس لیے جواب دینے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف کیا اور اللہ تعالیٰ نے دوبارہ وہی جواب وحی فرمادیا جو تورات کےعین مطابق تھا اور یہود کو اپنے لیے آپ کی رسالت سے انکار کا کوئی عذر نہ مل سکا۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نخلستان میں کھجور کی چھڑی کا سہارا لیے ہوئےتھے۔آگے مذکورہ بالا روایت ہے، اور اس روایت میں ہے۔"و اُوتِيتُم مِنَ العِلمِ الَا قَلَيلاً"تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔