اسود بن عامر نے کہا: ہمیں شعبہ بن حجاج نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابونضرہ سے اور انہوں نے قیس (بن عباد) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ نے اپنے اس کام پر غور کیا جو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معاملے میں کیا ہے (ان کا بھرپور ساتھ دیا ہےاور ان کے مخالفین سے جنگ تک کی ہے) یہ آپ کے اپنے غوروفکر سے اختیار کی ہوئی آپ کی رائے تھی یا ایسی چیز تھی جس کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ لوگوں کے سپرد کی تھی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی ذمہ داری ہمارے سپرد نہیں کی جو انہوں نے تمام لوگوں کے سپرد نہ کی ہو لیکن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھیوں میں سے بارہ افراد منافق ہیں، ان میں سے آٹھ ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے (کبھی داخل نہیں ہوں گے)، ان میں آٹھ ایسے ہیں (کہ ان کے شر سے نجات کے لیے ان کے کندھوں کے درمیان ظاہر ہونے والا سرخ) پھوڑا تمہاری نجات کے لیے تمہیں کفایت کرے گا۔ اور چار۔" (آگے کا حصہ) مجھے (اسود بن عامر کو) یاد نہیں کہ شعبہ نے ان (چار) کے بارے میں کیا کہا تھا۔
قیس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا بتائیے آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے معاملہ میں جو وطیرہ (مددو نصرت) اپنایا کیا یہ طرز عمل تمھاری اپنی سوچ تھی، جو تم نے سوچی یا ایسی چیز جس کی تلقین تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی؟ تو انھوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کسی ایسی چیز کی تلقین نہیں فرمائی،جس کی تاکید سب لوگوں کو نہ کی ہو، لیکن حضرت خذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرے ساتھیوں میں منافق ہیں(یعنی میرے ماننے والوں میں سے) ان میں سے آٹھ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ سے نہ گزرجائے، ان میں سے آٹھ کے لیے دبیلہ (پیٹ کا پھوڑا) کافی ہو گا اور چار" کے بارے میں مجھے یاد نہیں ہے۔(یعنی اسود کو) کہ شعبہ نے کیا کہا تھا۔