الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
مُقَدِّمَةٌ
مقدمہ
6ق. باب الْكَشْفِ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَقَلَةِ الأَخْبَارِ وَقَوْلِ الأَئِمَّةِ فِي ذَلِكَ ‏‏
6ق. باب: حدیث کے راویوں کا عیب بیان کرنا درست ہے اور وہ غیبت میں داخل نہیں۔
حدیث نمبر: 67
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، قَالَ: كَذَبَ وَاللَّهِ عَمْرٌو وَلَكِنَّهُ أَرَادَ، أَنْ يَحُوزَهَا إِلَى قَوْلِهِ الْخَبِيثِ
معاذ بن معاذ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہ سے کہا: عمرو بن عبید نے حضرت حسن بصری سے (روایت کرتے ہوئے) یہ حدیث سنائی: جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔ انہوں نے کہا: بخدا! عمرو نے (اس حدیث کی روایت حسن بصری کی طرف منسوب کرنے میں) جھوٹ بولا لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس (صحیح حدیث) کو اپنی جھوٹی بات سے ملا دے۔
معاذ بن معاذؒ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہؒ سے پوچھا: عمرو بن عبید ہمیں حسن بصریؒ سے یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ عوفؒ نے قسم اٹھا کر کہا: عمرو جھوٹا ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث سے اپنے خبیث نظریہ کو تقویت پہنچائے، اور اس کو ثابت کرے۔ (حَوَزَ کا معنی ہے جمع کرنا، اکٹھا کرنا)-
ترقیم فوادعبدالباقی: 7
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19182)» ‏‏‏‏

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 67 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 67  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ حدیث نفس الامر اور حقیقت واقعہ کے اعتبار سے صحیح ہے،
امام مسلمؒ نے خود یہ حدیث بیان کی ہے۔
اور اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے:
کہ بلا شرعی ضرورت کے کسی مسلمان کے قتل کے درپے ہونا،
مسلمان کا شیوہ نہیں ہے،
اس لیے انسان ہمارے طریقہ اور ڈگر کو چھوڑ دیتا ہے۔
لیکن اس کا وہ مطلب نہیں ہے،
جومعتزلہ کہتے ہیں:
کہ اس حدیث سے معلوم ہوا،
کبیرہ گناہ کا مرتکب ایمان سے خارج ہوجاتا ہے،
اگرچہ کافر نہیں ہوتا،
لیکن کافروں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب مسلمان،
فاسق اور نا فرمان مسلمان ہے،
مسلمان کا معنی:
اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والا ہے،
اور یہ مسلمان کے شیوہ اطاعت وفرمانبرداری سے نکل گیا ہے،
اس لیے مجرم اور گناہ گار ہونے کی وجہ سے اگر توبہ نہ کرے،
یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بخش نہ دے،
تو سزا کا مستحق ہے اور سزا بھگتنے کے بعد یا سفارش کی قبولیت کی صورت میں سفارش سے دوزخ سے نکل آئے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 67