جریر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ اپنے خیال میں رقوب کسے شمار کرتے ہو؟ ہم نے عرض کی: جس شخص کے بچے پیدا نہ ہوتے ہوں۔ آپ نے فرمایا: "یہ رقوب نہیں ہے، بلکہ رقوب وہ شخص ہے جس نے (آخرت میں) کسی بچے کو آگے نہ بھیجا ہو۔" آپ نے فرمایا: "تم اپنے خیال میں پہلوان کسے سمجھتے ہو؟" ہم نے کہا: جس کو لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ نے فرمایا: "پہلوان وہ نہیں ہے، بلکہ پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھتا ہے۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:"تم اپنے اندر "رَقُوب"(بے اولاد)کس کو سمجھتے ہو؟"ہم نے کہا، جس کی اولاد نہ ہو، آپ نے فرمایا:"وہ"رَقُوب"نہیں ہے لیکن وہ شخص "رَقُوب"ہے جس نے اپنے آگے کسی بچہ کو نہ بھیجا ہو، (قیامت کے دن اس کو آگے لینے کے لیے آئے) آپ نے پوچھا،"تم اپنے اندر شہ زور (گرانے والا)کس کو سمجھتے ہو؟"ہم نے عرض کیا، جس کوکوئی پچھاڑنہ سکے آپ نے فرمایا:"وہ طاقتور نہیں ہے بلکہ طاقت ور پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6641
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: رقوب: جس کی اولاد نہ بچے، صرعة: شہ زور، پہلوان، جو مدمقابل کو پچھاڑ دے اور کوئی اس کو پچھاڑ نہ سکے۔ فوائد ومسائل: عام طور پر لوگ اسی کو لاولد خیال کرتے ہیں، جس کی اولاد زندگہ نہ رہے، جبکہ شرعا وہ لاولد ہے، جس کی زندگی میں، اس کی اولاد فوت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی موت پر اللہ تعالیٰ سے اجروثواب حاصل کرنے کے لیے صبر کرے اور قیامت کے دن وہ اس کے لیے پیش رو اور پیشوا بن سکے، اسی طرح زورآور، پہلوان اس کو خیال کیا جاتا ہے، جو مدمقابل کو پچھاڑ دے، جبکہ شرعی نقطہ نظر سے شہ زور اور پہلوان وہ ہے، جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے، کیونکہ سب سے بڑا اور بہت ہی مشکل کام، اپنے نفس کو زیر کرنا اور اس پر قابو پانا ہے، اس لیے نفس کو سخت ترین دشمن قرار دیا جاتا ہے اور خاص کر غصہ کی صورت میں تو اس پر قابو نہایت کٹھن اور مشکل کام ہے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ طاقتور اور پہلوان کہلانے کا اصل اور صحیح حقدار، وہ اللہ کا بندہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو پا لے او نفسانیت اس سے کوئی بیجا حرکت اور غلط کام نہ کروا سکے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کمال اور خوبی یہ نہیں ہے اور نہ بندہ سے یہ مطالبہ ہے کہ اس کو غصہ آئے ہی نہیں، کیونکہ کسی کی سخت ناگوار حرکت پر غصہ آنا ایک طبعی اور فطرتی جذبہ ہے، جس کو ختم نہیں کیا جا سکتا، مطلوب یہ ہے کہ غصہ کی کیفیت کے وقت نفس پر پورا قابو رہے، ایسا نہ ہو کہ غصہ سے مغلوب ہو کر انسان خلاف شریعت اور شان بندگی کے منافی حرکات کا مرتکب ہو جائے۔