داؤد بن قیس نے ہمیں عامر بن کریز کے آزاد کردہ غلام ابوسعید سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر فرمایا): "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک دوسرے سے حسد نہ کرواور بولی نہ بڑھاؤ،ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو اور ایک دوسرے کی خریدوفروخت پر خریدوفروخت نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو،ہرمسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس پر ظلم وزیادتی نہ کرے،"اور جب وہ اس کی مدد واعانت کامحتاج ہواس کی مددکرے،"اس کو بے یارمددگار نہ چھوڑے،اس کو حقیر نہ جانے،یعنی اسکے ساتھ حقارت کابرتاؤ نہ کرے،تقویٰ یہاں ہے،"پھرآپ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:"آدمی کے لیے برا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے،مسلم کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابل احترام ہے،اس کاخون،اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6541
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لايخذله: جب وہ اس کی مدد و اعانت کا محتاج ہو تو اس کی مدد سے دستکش نہ ہو، اس کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے اس کی مدد اور اعانت کرے، " یعنی جب اس کو ظلم و ستم سے بچانا اس کے لیے ممکن ہو تو وہ اسے گریز نہ کرے۔ (2) لايحقروه: اس کو حقیر خیال نہ کرے اور اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک نہ کرے۔ (3) التقوي ههنا: اللہ کے ڈر اور خوف کا تعلق دل سے ہے اور کسی کے معزز و محترم کا مدار تقویٰ پر ہے، ہو سکتا ہے تم کسی کو ظاہری حال سے کم تر خیال کرو اور وہ اپنے دلی تقویٰ کی بنا پر اللہ کے ہاں محترم و مکرم ہو۔