ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابو زناد سے حدیث بیان کی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور ابن طاوس نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان عورتوں میں سے بہترین جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں۔ان دونوں (اعرج اورطاؤس) میں سے ایک نے کہا: قریش کی نیک عورتیں ہیں اور دوسرے نے کہا: قریش کی عورتیں ہیں۔جو یتیم بچے کی کم عمری میں اس پر سب سے زیادہ مہربان ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بہترین عورتیں،جو اونٹوں پر سواری کرتی ہیں،وہ قریش کی پارساعورتیں ہیں،یا قریشی عورتیں ہیں،جو یتیم پر بچپن میں بہت شفقت کرتی ہیں اور خاوند کے ہاتھ کی چیزوں کی بہت حفاظت کرتی ہیں۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6456
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: خير نساء ركبن الابل: اونٹ سوار عورتوں میں سب سے بہتر، یعنی عرب عورتوں میں سب سے بہتر، کیونکہ عربی عورتیں ہی اونٹ پر سواری کرتی تھیں، گویا، اپنے دور میں سب سے بہتر قریش کی باصلاحیت عورتیں تھیں، اس لیے مریم علیہا السلام کو نکالنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس دور میں تھی ہی نہیں اور اس فضیلت و خیریت کی سبب دو خوبیاں ہیں: (1) احناه علي يتيم، جو بچہ پر بچپن میں انتہائی شفقت کرتی ہیں، حتی کہ اگر بیوہ ہو جائیں تو اولاد کی خاطر، نئی شادی کرنے سے گریز کرتی ہیں، تاکہ ان کی پرورش و پرداخت یکسوئی سے کر سکیں۔ (2) ارعاه علي زوج في ذات يده: خاوند کی ہاتھ کی چیز یعنی اس کے مال و دولت کی خوب حفاظت کرتی ہیں، اسراف و تبذیر یا فضول خرچی سے اس کو ضائع نہیں کرتیں، ظاہر ہے، جب وہ مال و دولت کی حفاظت کرتی ہیں تو اس کی عزت و ناموس جو انمول شئی ہے، اس کی بالاولیٰ حفاظت کریں گی۔