کہا: (تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پا س گئیں۔ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔
ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں،حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے تھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ملاقات کے لیے گئیں،چونکہ وہ بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں تو سیدنا عمر ؓ ام المؤمنین حفصہ ؓ کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس ؓ ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اسماء ؓ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ ؓ نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اوراب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء ؓ بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء ؓ نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر ؓ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (ؓ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء ؓ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اوردنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو باربار سننا چاہتے۔