عائشہ بنت طلحہ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی (میری وہ اہلیہ ہوگی جو) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔" انھوں نے کہا: ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انھوں نے کہا: اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے سب سے پہلے مجھے،لمبے ہاتھوں والی ملےگی۔"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،چنانچہ ازواج مطہرات،اپنے ہاتھوں کی پیمائش کرتی تھیں کہ ان میں سے سب سے لمبے ہاتھ کس کے ہیں؟وہ بیان کرتی ہیں،ہم میں سے سب سے لمبے ہاتھ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تھے،کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے صدقہ کرتی تھیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6316
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طول ید سے مقصد، ہاتھ سے کام کاج اور محنت و مزدوری کر کے صدقہ و خیرات کرنا تھا، لیکن ازواج مطہرات نے ظاہری معنی مراد لیتے ہوئے، اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی تو سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے تھے، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں 20ھ سب سے پہلے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات ہو گئی، حالانکہ ان کے ہاتھ چھوٹے تھے تو پھر پتہ چلا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد، ظاہری یا حقیقی طور پر لمبے مراد نہیں تھے اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی، اس لیے امام بخاری کا اپنی تاریخ صغیر میں سب سے پہلے مرنے والی حضرت سودہ کو قرار دینا درست نہیں ہے، اس طرح صحیح بخاری میں ابو عوانہ کی روایت میں، حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ و خیرات میں ممتاز قرار دینا درست نہیں ہے، کیونکہ حضرت سودہ کے ہاتھ تو حقیقی اور ظاہری طور پر لمبے تھے تو پھر اگر حضرت سودہ پہلے فوت ہوتیں تو پھر حقیقی معنی کا غلط ہونا کیسے واضح ہوتا۔