سعید بن مسروق نے یزید بن حیان سے، انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ان (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے اور اُن سے عرض کی: آپ نے بہت خیر دیکھی ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں ہیں، اور پھر ابو حیان کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، مگرانھوں نے (اس طرح) کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "دیکھو، میں تمھارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ایک اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کی رسی ہے جس نے (اسے تھام کر) اس کا اتباع کیا وہ سیدھی راہ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔"اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا: آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ (صرف) آپ کی ازواج؟انھوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم!عورت اپنے مرد کے ساتھ زمانے کا بڑا حصہ رہتی ہے، پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اہل بیت وہ (بھی) ہیں جو آپ کے خاندان سے ہیں، آپ کے وہ ددھیال رشتہ دار جن پر صدقہ حرام ہے۔
یزید بن حیان بیان کرتے ہیں،ہم زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اُن سے عرض کی:آپ نے بہت خیر دیکھی ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں ہیں،اور پھر ابو حیان کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی،مگرانھوں نے(اس طرح) کہا:(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "دیکھو،میں تمھارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ایک اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کی رسی ہے جس نے(اسے تھام کر) اس کا اتباع کیا وہ سیدھی راہ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔"اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا:آپ کے اہل بیت کون ہیں؟(صرف) آپ کی ازواج؟انھوں نے کہا:نہیں،اللہ کی قسم!عورت اپنے مرد کے ساتھ زمانے کا بڑا حصہ رہتی ہے،پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اہل بیت وہ(بھی) ہیں جو آپ کے خاندان سے ہیں،آپ کے وہ ددھیال رشتہ دار جن پر صدقہ حرام ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6228
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) ثقلين: دو اہم اور وزن دار چیزیں، عرب، ہر نفیس اور قیمتی چیز کو ثقیل سے تعبیر کرتے ہیں، (2) حبل الله: اللہ کا عہد و پیمان، کیونکہ جس طرح رسی دو چیزوں میں ربط و تعلق پیدا کرتی ہے، عہد و پیمان بھی دو فریقوں میں ربط و تعلق پیدا کرتا ہے۔ (3) العصر من الدهر: زمانہ کا ایک حصہ یا ایک مدت و عرصہ۔ فوائد ومسائل: أنا تارك فيكم ثقلين: یہ بات آپ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم میں فرمائی، اولهمایا احدهما كتاب الله: ان میں سے پہلی یا ایک کتاب اللہ ہے، جس کا مقام و مرتبہ اور حق یہ ہے کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے اور وہ اللہ کا عہد و پیمان ہے، اس لیے اس پر عمل پیرا ہونا اور اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنا ضروری ہے، کیونکہ اس کی پیروی کرنا ہی ہدایت کا راستہ ہے، اس کو چھوڑ دینا ضلالت و گمراہی ہے اور کتاب اللہ میں آپ کی سنت بھی داخل ہے، کیونکہ اس کے بغیر کتاب اللہ کو سمجھنا ممکن نہیں اور وہ اس کا بیان ہے اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (يايها الناس إنی قد تركت فيكم ما ان اعتصمتم به فلن تضلوا أبدا، كتاب الله و سنة نبيه صلی الله عليه وسلم) "اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ چلا ہوں، اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے، کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔ "اس کے ہم معنی اور روایات بھی موجود ہیں، جس سے ثابت ہوا، دین کی اساس و بنیاد، کتاب اللہ اور سنت رسول ہے، جن کے ساتھ تمسک کرنے اور عمل کرنے کے ہم پابند ہیں، ان کے سوا کوئی چیز دین کی اساس نہیں بن سکتی، دوسری چیز کے بارے میں فرمایا: (اذكركم الله في أهل بيتی) میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللہ یاد کراتا ہوں، یعنی ان کا احترام و تکریم کرنا، ان کے مقام و مرتبہ کا لھاظ رکھنا، لیکن تمسک اور اطاعت کی حقدار صرف کتاب اللہ ہے، اس کے مقابلہ میں کسی کی بات بھی قابل قبول نہیں ہے، احترام و تکریم اور ان سے محبت و عقیدت کا یہ معنی نہیں، ان کی ہر بات آنکھ بند کر کے مان لو اور یہ حیثیت صرف کتاب اللہ کی ہے۔ نساء و من اهل بيته: اس کی بیویاں، اس کا اہل بیت ہیں، لیکن آگے روایت آ رہی ہے کہ اس کی بیویاں اس کا اہل بیت نہیں ہے، یہ دونوں جواب حضرت زید نے دئیے ہیں، جس کا یہ مطلب ہوا، ان کے نزدیک عرف و لغت اور قرآن کی رو سے تو بیویاں اہل بیت ہیں، لیکن اس خطبہ میں وہ مراد نہیں ہے، یہاں مراد آپ کا خاندان اور کنبہ ہے اور یہ صرف آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس کے لوگ ہیں، یہاں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اصل کی تخصیص اور تحدید کر دی، حالانکہ اصل منبع اور سرچشمہ کو کہتے ہیں، اس کی رو سے تمام بنو ہاشم اس کا مصداق ہونا چاہیے اور عَصَبَات، باپ کی طرف سے رشتہ داروں کو کہتے ہیں، اس میں آپ کے باپ کے تمام بھائی اور ان کی اولاد آنی چاہیے، نیز یہاں بیویوں کو نکالنے کے لیے جو دلیل دی ہے کہ اگر ان کو طلاق ہو جائے تو وہ اپنے خاندان کی طرف لوٹتی ہیں، لہذا وہ اہل بیت نہیں، صرف یہی نہیں کہ یہ بات، عرف، لغت اور قرآن کے خلاف ہے، اپنی جگہ بھی محل نظر ہے، کیونکہ بیوی کو جب طلاق مل گئی، تب وہ اہل بیت نہیں ہو گی، بیوی ہونے کی صورت میں تو وہی اہل بیت ہے، اس لیے انسان کی بیٹی، اپنے خاوند کے گھر رہتی ہے اور بیٹا اپنا الگ گھر بسا لیتا ہے، آخری دم تک کی رفیقہ حیات تو بیوی ہے، اسی خاوند کے ساتھ رہتی ہے، کوئی بیٹا یا بیٹی تو آخری دم تک ساتھ نہیں رہتا، نیز آپ کی بیویوں کو تو ایک اور امتیاز اور خصوصیت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کو طلاق دینے سے منع کر دیا اور آپ کے بعد ان کو آگے نکاح کرنے سے منع کر دیا، اس لیے ان کو اہل بیت سے کیسے نکالا جا سکتا ہے، جبکہ ان کو آپ کے بعد ان کے گھروں سے نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ نیز قرآن مجید میں ان کو اہل بیت قرار دیا گیا ہے اور قرآن ہی اصل دلیل اور حجت ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔