یحییٰ قطان نے عبید اللہ سے اسی سند کے ساتھ ابو اسامہ کی حدیث کے ہم معنی روایت کی اور مزید بیان کیا: کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔
یہی روایت امام صاحب دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھنا چھوڑدیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6208
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عبداللہ بن ابی، منافقوں کا سرغنہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالقعدہ 9ھ میں تبوک سے واپس آئے تو وہ فوت ہو گیا، اس کے باپ کا نام ابی اور ماں کا نام سلول تھا اور اس کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ تھا، جو انتہائی جلیل القدر اور آپ کا وفادار صحابی تھا، حتیٰ کہ اُس نے آپ کی خاطر اپنے باپ کو قتل کرنے کی بھی آپ سے اجازت طلب کی تھی اور آپ نے باپ سے اچھے سلوک کی تاکید فرمائی تھی اور اس نے اپنے باپ کی خواہش کے مطابق آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا تھا اور نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی تھی۔ (تکملہ ج 5 ص 91) ۔ جب آپ نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تیار ہو گئے تو حضرت عمر نے آپ کا کپڑا پکڑ کر اس کی خباثتیں اور شرارتیں گنوانا شروع کر دیا اور کہا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقوں کی نماز جنازہ سے منع فرمایا ہے، کیونکہ جنازہ کا مقصد تو معافی اور بخشش کی دعا کرنا ہے اور ان کو معافی ملنی نہیں ہے تو گویا منع کر دیا گیا ہے، آپ نے فرمایا، اے عمر، مجھے منع نہیں کیا گیا، بلکہ اختیار دیا گیا ہے کہ استغفار کرو یا نہ کرو ان کو معافی نہیں ملنی، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے، اس کا مجھے یا دوسرے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا، اس لیے آپ کے اس وسعت اخلاق اور اپنے مخلص صحابی اس کے بیٹے کی دلجوئی کی اور اس کے خاندان پر رحمت و شفقت کا یہ نتیجہ نکلا کہ بہت سے منافق مسلمان ہو گئے کہ دیکھو، اس نے مرتے وقت خود، آپ سے نماز جنازہ پڑھانے کی خواہش کی اور بخاری شریف کے الفاظ ہیں، اگر میں جانتا کہ ستر دفعہ سے زائد مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی بخشش ہو سکتی ہے تو میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرتا، گویا آپ نے یہ بات واضح فرما دی، میری نماز جنازہ پڑھانے سے اس کو فائدہ نہیں ہو گا اور میرا مقصد اس کو فائدہ پہنچانا نہیں ہے، اس کی قوم کی دلجوئی ہے، لیکن اس کے بعد آپ کو صریح طور پر منافقوں کا جنازہ پڑھنے اور ان کے کفن دفن میں حصہ لینے سے روک دیا گیا، کیونکہ اس طرز عمل سے منافقوں کی ہمت افزائی اور مومنوں کی دل شکستگی کا اندیشہ بھی تھا۔ اگر پہلی آیت میں آپ کو جنازہ سے روکنا مراد ہوتا تو آپ کے جنازہ پڑھنے پر آپ کو توبیخ کی جاتی، دوسری آیت نہ اتاری جاتی، جیسا کہ جنگ تبوک میں آپ نے منافقوں کو پیچھے رہنے کی اجازت دی تو فرمایا: عفا الله عنك لم اذنت لهم