منصور نے ابو وائل (شقیق) سے، انھوں نے عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم تین لوگ (ایک ساتھ) ہوتو ایک کو چھوڑ کردو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں، یہاں تک کہ تم بہت سے لوگوں میں مل جاؤ، کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ (دوکی سرگوشی) اسے غمزدہ کردے۔"
امام صاحب کے پاس اساتذہ، تین سندوں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تین افراد ہو تو دو، تیسرے کو چھوڑ کر باہمی سرگوشی نہ کرو، حتی کہ لوگوں سے گھل مل جاؤ، اس لیے کہ اس سے اسے غم ہو گا۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5696
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جب تین افراد اور لوگوں سے گھل مل جائیں گے تو دو افراد کی سرگوشی کی صورت میں تیسرا اور آدمیوں سے محو گفتگو ہو سکے گا، اس طرح اسے پریشانی لاحق نہیں ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5696
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1239
´دو آدمی تیسرے آدمی کی موجودگی میں سرگوشی نہ کریں` «وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا كنتم ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون الآخر حتى تختلطوا بالناس من اجل ان ذلك يحزنه، متفق عليه واللفظ لمسلم» ”اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین ہو تو دو آدمی تیسرے کے بغیر آپس میں سرگوشی نہ کریں یہاں تک کہ تم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جاؤ کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی۔“ متفق علیہ اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1239]
مفردات: «يحزنه» زاء کے کسرہ کے ساتھ «أكرم يكرم» کی طرح اور زاء کے ضمہ کے ساتھ «نصر ينصر» کی طرح متعدی ہے دونوں کا معنی غمگین کرنا ہے «ولا يحزنك الذين يسارعون فى الكفر» کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ تجھے غمناک نہ کریں [آل عمران: 19] البتہ زاء کے فتحہ کے ساتھ «سمع» لازم ہے اس کا معنی غمگین ہونا ہے۔ «لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا»”غمگین نہ ہو بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“[9-التوبة:40]
فوائد:
➊ دو آدمیوں کی آپس میں سرگوشی سے تیسرے ساتھی کے غمگین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسے خیال گزرے گا کہ یہ میرے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہے ہیں یا کم از کم اتنی بات ضرور ہے کہ انہوں نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ مجھے اپنے راز میں شریک کریں۔
➋ دوسرے لوگوں سے مل جانے کے بعد دو آدمی آپس میں سرگوشی کر سکتے ہیں خواہ ایک آدمی بھی مزید مل جائے۔ کیونکہ دو آدمیوں کے آپس میں سرگوشی کرنے کی صورت میں تیرا اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ بھی ایک آدمی موجود ہے وہ آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں۔ مالک نے عبداللہ بن دینار سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ میں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بازار میں خالد بن عقبہ کے گھر کے پاس تھے ایک آدمی آیا جو ان سے کوئی پوشیدہ بات کرنا چاہتا تھا اور اس وقت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا تو انہوں نے ایک اور آدمی کو بلایا اور مجھ سے اور اس آدمی سے کہا: تم دونوں ذرا ٹھہرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے پھر انہوں نے یہ حدیث بیان کی کہ جب تم تین آدمی ہو۔۔۔ الخ [موطا]
➌ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہیں کر سکتے تو دو سے زیادہ آدمی بھی ایک ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر سرگوشی نہیں کر سکتے مثلاً تین یا دس آدمی اپنے کسی ایک ساتھی کو علیحدہ کر کے آپس میں سرگوشی کریں گے تو یہ چیز دو آدمیوں کے علیحدہ ہو کر سرگوشی کرنے سے بھی زیادہ باعث غم ہو گی۔ اس لئے جب تک اس کے ساتھ کوئی اور آدمی نہ ہو دوسرے ساتھیوں کو آپس میں سرگوشی کرنا جائز نہیں۔ [فتح الباري]
➍ دو آدمی اگر آپس میں کوئی راز کی بات کر رہے ہیں اور کوئی تیسرا اسے سننے کے لئے آ جائے تو یہ اس کے لئے جائز نہیں نہ ہی اس کے آنے سے ان کے لئے آپس میں سرگوشی منع ہو گی۔ سعید مقبری فرماتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرا ان کے ساتھ ایک آدمی باتیں کر رہا تھا میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا تو انہوں نے میرے سینے میں دھکا دے کر کہا: جب تم دو آدمیوں کو بات کرتے ہوئے دیکھو تو جب تک اجازت نہ لے لو نہ ان کے پاس کھڑے ہو نہ بیٹھو۔ [صحيح الأدب المفرد للبخاري 1166/889] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسے لوگوں کی بات کان لگا کر سنے جو اس سے بھاگتے ہوں قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائے گا۔“[عن ابن عباس احمد، ابوداود، الترمذي، صحيح الجامع 6370]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 34
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1239
´ادب کا بیان` سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم تین (آدمی) ہو تو دو آدمی تیسرے کو الگ کر کے سرگوشی نہ کریں تاوقتیکہ وہ لوگوں کے ساتھ مل جل نہ جائیں کیونکہ اس طرح یہ چیز اسے غمگین اور رنجیدہ خاطر کرتی ہے۔“(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1239»
تخریج: «أخرجه البخاري، الاستئذان، باب إذا كانوا أكثر من ثلاثة...، حديث:6290، ومسلم، السلام، باب تحريم مناجاة الثنين دون الثالث بغير رضاه، حديث:2184.»
تشریح: اس حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ساتھی کو نظر انداز کر کے کانا پھوسی اور سرگوشی کرنا منع ہے۔ اس سے انسانی جذبات و احساسات کا احترام ملحوظ رکھنے کا سبق ملتا ہے کہ ایسا کام انجام نہ دیا جائے جس سے دوسرے کو تکلیف ہوتی ہو اور اسے خیال گزرے کہ یہ مجھے اپنا نہیں بلکہ غیر تصور کرتے ہیں یا اسے کھٹکا اور اندیشہ پیدا ہو کہ یہ دونوں میرے خلاف ساز باز کر رہے ہیں اور مجھے دھوکا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے دوسرے کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہے‘ اس لیے تین آدمیوں کی مجلس میں دو کا علیحدہ ہو کر کانا پھوسی اور سرگوشی کرنا منع کیا گیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1239
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6290
6290. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہوتو تیسرے ساتھی کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کیا کریں کیونکہ ایسا کرنے سے تیسرے کو رنج ہوگا۔ اگر لوگ آپس میں ملے جلے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6290]
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث مفہوم مخالف کے اعتبار سے عنوان کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، یعنی اگر تین سے زیادہ ہوں تو ان میں سے دو آدمی خفیہ بات کرسکتے ہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ راوئ حدیث ابو صالح نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اگر چار افراد ہوں تو؟ انھوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4852)(2) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل تھا کہ اگر تین آدمیوں کی موجودگی میں کسی سے راز کی بات کرنا چاہتے تو کسی چوتھے آدمی کو ساتھ ملا لیتے۔ بہرحال تیسرے کو چھوڑ کو آپس میں سرگوشی کرنا یا کسی ایسی زبان میں بات کرنا جو اس کی سمجھ میں نہ آتی ہو اس کے لیے ازحد تکلیف کا باعث ہے اور اس کی عزت وکرامت کے بھی خلاف ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6290