محمد بن سیرین نے کہا کہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزا اشخاص حساب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ ایسے لوگ ہیں جو داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے، نہ دم ہی کراتے ہیں اور اپنے رب پر کامل بھروسہ کرتے ہیں۔“ عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے بھی ان میں (شامل) کر دے۔آپ نے فرمایا: ”تم ان میں سے ہو۔“(عمران رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا او رکہنے لگا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے (بھی) ان میں (شامل) کر دے، آپ نے فرمایا: ”اس میں عکاشہ تم سے سبقت لے گئے۔“
حضرت عمران ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار (70000) اشخاص بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے۔“ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ نہیں لگاتے، نہ دم کرواتے ہیں اور اپنے رب پر اعتماد کرتے ہیں۔“ تو عکاشہؓ کھڑے ہو کر کہنے لگے: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ان میں سے ہے۔“ تو ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ سے دعا کیجیے! کہ وہ مجھے بھی ان میں سے کر دے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 218
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (10841)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 524
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ظاہری طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنت میں بلا حساب داخل ہونے والے لوگ بیماری کی صورت میں دم جھاڑ نہیں کرواتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ صحت وعافیت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر فائدہ نہیں پہنچاتے، اس لیے ہم اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان ظاہری اسباب کو نہیں اپناتے۔ لیکن یہ مفہوم حدیث کے اس ٹکڑے کے منافی ہے کہ ”وہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد وبھروسہ کرتے ہیں۔ “ تو اگر ظاہری اسباب کے ترک کا نام ہی توکل ہے، تو پھر کھانے پینے اور کمانے کی کیا ضرورت ہے؟ سیر اور سیراب تو اللہ ہی کرتا ہے، دشمن کے مقابلہ میں مسلح ہو کر نکلنے کی کیا ضرورت ہے، دشمن پر فتح تو اللہ ہی دیتا ہے۔ دین کی نشر واشاعت اور تبلیغ ودعوت کی کیا ضرورت ہے، دین کو تو اللہ ہی پھیلاتا اور غالب فرماتا ہے، اسی طرح دعا کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ درجہ تو اللہ ہی نے دینا ہے۔ اس لیے حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے، کہ وہ غیر شرعی اسباب ووسائل اختیار نہیں کرتے، جیسا کہ جاہلیت کے دور میں لوگ ہر قسم کا دم جھاڑ کرتے تھے، یا بدشگونی پکڑتے تھے، بلکہ وہ انہی اسباب ووسائل کو اختیار کرتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یا اجازت دی ہے، اور ان جائز اسباب کے اختیار کرنے کے باوجود ان کا اعتماد اور سہارا اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے کہ یہ ظاہری اسباب تبھی کارگر ہوں گے، جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اسباب میں اثر وتاثیر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، چاہے تو ان میں تاثیر پیدا کر دے اور ان سے نتیجہ برآمد ہوجائے، چاہے تو ان سے تاثیر سلب کرلے اور یہ ناکام ہوجائیں۔