یحییٰ بن کثیر عنبری ابو غسان نے کہا: ہمیں شعبہ نے مالک بن انس سے حدیث بیان کی، انھوں نے عمر بن مسلم سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے، انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کاا رادہ رکھتا ہو، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو (نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے۔"
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تمہارا قربانی کا ارادہ ہو تو اپنے بال اور ناخن کو چھیڑنے سے باز رہو۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح مسلم 5119
عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے بعض احکام و مسائل: نمبر 1: سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا رأيتم هلال ذي الحجة و أراد أحدكم أن يضحّي فليمسك عن شعره و أظفاره» جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے بال اور ناخن تراشنے سے رُک جانا چاہئے۔ [صحيح مسلم: 1977، ترقيم دارالسلام: 5119] اس حدیث میں ”ارادہ کرے“ سے ظاہر ہے کہ قربانی کرنا واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے: [المحلّي لابن حزم 7/ 355 مسئله: 973] درج بالا حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے ناخن تراشنا اور بال مونڈنا منڈوانا، تراشنا ترشوانا جائز نہیں ہے۔ سیدنا ابوسریحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما دونوں میرے پڑوسی تھے اور دونوں قربانی نہیں کرتے تھے۔ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 7/198 ح 5633 وسنده حسن، وحسنه النووي فى المجموع شرح المهذب 8/383، وقال ابن كثير فى مسند الفاروق 1/332: ”وهذا اسناد صحيح“] امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: قربانی سنت ہے، واجب نہیں ہے اور جو شخص اس کی استطاعت رکھے تو میں پسند نہیں کرتاکہ وہ اسے ترک کر دے۔ [الموطأ 2/ 487 تحت ح 1073] امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: قربانی کرنا سنت ہے، میں اسے ترک کرنا پسند نہیں کرتا۔ [كتاب الام ج1ص 221] نیز دیکھئے: [المغني لابن قدامه 9/ 345 مسئله: 7851] امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «باب سنة الأضحية»[صحيح بخاري قبل ح 5545]
نمبر 2: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من كان له سعة ولم يضحّ فلا يقر بنّ مصلانا» جس آدمی کے پاس طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ [سنن ابن ماجه: 3123 وسنده حسن، وصححه الحاكم 4/ 232 ووافقه الذهبي ورواه احمد 2 / 321] اس روایت میں عبداللہ بن عیاش المصری «مختلف فيه» راوی ہیں جن پر کبار علماء وغیرہم نے جرح کی اور جمہور نے توثیق کی، تقریباًً پانچ اور چھ کا مقابلہ ہے۔! روایتِ مذکورہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قربانی کا استخفاف و توہین کرتے ہوئے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے تو اسے مسلمانوں کی عیدگاہ سے دور رہنا چاہئے یعنی یہ روایت قربانی کے استحباب وسُنیت پر محمول اور منکرینِ حدیث کا رد ہے۔
نمبر 3: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ کاکیا خیال ہے، اگر مجھے صرف مادہ قربانی (دودھ دینے والا جانور) ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم ناخن اور بال کاٹ لو، مونچھیں تراشو اور شرمگاہ کے بال مونڈ لو تو اللہ کے ہاں تمھاری یہ پوری قربانی ہے۔ [سنن ابي داود: 2789 وسنده حسن، وصححه ابن حبان، الموارد: 1043، والحاكم 4/ 223 والذهبي] اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن ہلال الصدفی صدوق ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 5337] انہیں یعقو ب بن سفیان الفارسی المعرفۃ و التاریخ [2/ 515، 487] اور ابن حبان وغیرہما نے ثقہ قرار دیا ہے۔ ایسے راوی کی روایت حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتی۔ عیاش بن عباس القتبانی ثقہ تھے۔ دیکھئے: [التقريب 5269] باقی سند صحیح ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ اگر ذوالحجہ کے چاند سے لے کر نمازِ عید سے فارغ ہونے تک بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ تراشے تو اسے قربانی کا ثواب ملتا ہے۔
نمبر 4: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحواجذعة من الضأن» دو دانتوں والے (دوندے) جانور کے علاوہ ذبح نہ کرو اِلا یہ کہ تم پر تنگی ہو جائے تو دُنبے کا جذعہ ذبح کردو۔ [صحيح مسلم: 1963، ترقيم دارالسلام: 5082] بکری (یا بھیڑ) کے اس بچے کو ”جذعہ“ کہتے ہیں جو آٹھ یانو ماہ کا ہو گیا ہو۔ دیکھئے: [القاموس الوحيد ص243] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: جمہور کے نزدیک بھیڑ (دُنبے) کا جذعہ اسے کہتے ہیں جس نے ایک سال پور ا کر لیا ہو۔ [فتح الباري 10/ 5 تحت ح 5547] بہتر یہی ہے کہ ایک سال کا جذعہ بھیڑ میں سے ہو، ورنہ آٹھ نو ماہ کا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم تنبیہ بلیغ: صحیح مسلم کی اس حدیث پر عصرِ حاضر کے شیخ البانی رحمہ اللہ کی جرح دیکھئے الضعیفۃ: [65]، ارواء الغلیل: [1145] مردود ہے۔ مستدرک الحاکم [4/ 226 ح 7538] وسندہ صحیح کی حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسنہ نہ ہونے کی حالت میں جذعہ کی قربانی کافی ہے۔
نمبر 5: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أربع لا تجوز فى الأضاحي: العور اء بيّن عورها والمريضة بيّن مرضها والعرجاء بيّن ظلعها والكسير التى لا تنقي» چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے: ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔ (اس حدیث کے راوی عبید بن فیروز تابعی نے) کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو؟ تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں جو چیز بُری لگے اُسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔ [سنن ابي داود: 2802] اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے ترمذی [1497] ابن خزیمہ [2912] ابن حبان [1046، 1047] ابن الجارود [481، 907] حاکم [1/ 467، 468] اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں دل میں شبہ ہو اور اسی طرح مشکوک چیزوں سے بچناجائز ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔ مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔ [سنن النسائي 7/217، 218 ح 4382 وسنده حسن و صححه الترمذي: 1504] سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔ [سنن النسائي 7/217 ح 4381 وسنده حسن وصححه الترمذي: 1503، و ابن خزيمه: 2914 و ابن حبان، الاحسان: 5890 والحاكم 4/ 225 والذهبي] ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا: اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ [معالم السنن 2/ 199 تحت ح683] معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔
نووی نے کہا: اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ [المجموع شرح المهذب 8/ 404]
نمبر 6: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قربانی کا گو شت، کھالیں اور جھولیں لوگوں میں تقسیم کر دیں اور قصاب کو اُس میں سے (بطورِ اجرت) کچھ بھی نہ دیں۔ دیکھئے صحیح بخاری [1717] و صحیح مسلم [1317] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جانور اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے (مثلاًً قربانی اور عقیقہ) اس کا بیچنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [شرح السنة للبغوي 7/188ح 1951]
نمبر 7: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سفید و سیاہ اور سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائے، آپ نے تسمیہ و تکبیر (بسم اللہ واللہ اکبر) کہی اور اپنا پاؤں اُن کی گردنوں پر رکھا۔ [صحيح مسلم: 1966، ترقيم دارالسلام: 5087، صحيح بخاري: 5564] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ چُھری کو پتھر سے تیز کرو۔ پھر آپ نے مینڈھے کو لٹا کر ذبح کیا اور فرمایا: بسم اللہ، اے میرے اللہ! محمد، آلِ محمد اور امتِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے قبول فرما۔ [صحيح مسلم: 1967، دارالسلام: 5091]
نمبر 8: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال سات (آدمیوں) کی طرف سے (ایک) اونٹ اور سات کی طرف سے (ایک) گائے ذبح کی۔ [صحيح مسلم: 1318، ترقيم دارالسلام: 3185] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اضحی (عید قربان) آگئی تو ہم نے (ایک) گائے میں سات (آدمی) اور (ایک) اونٹ میں دس (آدمی) شریک کئے۔ [سنن الترمذي: 1501، وقال: ”حسن غريب“ الخ وسنده حسن] ان احادیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ میں سات یا دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور گائے میں صرف سات حصہ دار ہوتے ہیں۔ بکری اور مینڈھے میں اتفاق ہے کہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی کافی ہے۔ حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سفر میں قربانی کرناجائز ہے۔
نمبر 9: نمازِ عید کے بعد قربانی کرنی چاہئے دیکھئے: [صحيح بخاري 5545 و صحيح مسلم 1961] عید کی نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔
نمبر 10: سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: مسلمانوں میں سے کوئی (مدینہ میں) اپنی قربانی خریدتا تو اسے (کھلا پلا کر) موٹا کرتا پھر اضحی کے بعد آخری ذوالحجہ (!) میں اسے ذبح کرتا تھا۔ [المستخرج لابي نعيم بحواله تغليق التعليق 5/6 وسنده صحيح، وقال احمد: ”هذا الحديث عجب“ صحيح البخاري قبل ح 5553 تعليقاً] تنبیہ: ”مدینہ میں“ والے الفاظ صحیح بخاری میں ہیں۔
نمبر 11: میت کی طرف سے قربانی کا ذِکر جس حدیث میں آیا ہے وہ شریک القاضی اور حکم بن عتیبہ دو مدلسین کی تدلیس ( «عن» سے روایت کرنے) اور ابوالحسناء مجہول کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: سنن ابی داود [2790] بتحقیقی، سنن الترمذی [1495] اور اضواء المصابیح [1462] تاہم صدقے کے طور پر میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے لہٰذا اس قربانی کا سارا گوشت اور کھال وغیرہ مسکین یا مساکین کو صدقے میں دینا ضروری ہے۔ تنبیہ: عام قربانی (جو صدقہ نہ ہو) کی کھال خود استعمال میں لائیں یا کسی دوست کو تحفہ دے دیں، یا کسی مسکین کو صدقہ کر دیں لیکن یاد رہے کہ زکوٰۃ کی آٹھ اقسام میں قربانی کی کھالیں تقسیم کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
نمبر 12: سیدنا ابوایو ب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے، آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے (ایک بکری قربان کرتا تھا) پھر بعد میں لوگوں نے ایک دوسرے پر فخر (اور ریس) کرنا شروع کر دیا۔ [موطأ امام مالك ج2ص 486 ح 1069، وسنده صحيح، النسخة الباكستانيه ص 497، السنن الكبريٰ للبيهقي 9/268، سنن الترمذي: 1505، وقال: ”حسن صحيح“ سنن ابن ماجه: 3147 وصححه النووي فى المجموع شرح المهذب 8/ 384] سنن ابن ماجہ وغیرہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ سیدنا ابوایو ب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ (وسندہ حسن) معلوم ہوا کہ اگر گھر کاسربراہ یا کوئی آدمی ایک قربانی کر دے تو وہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔
نمبر 13: عید گاہ میں قربانی کرناجائز ہے اور عید گاہ کے باہر اپنے گھر وغیرہ میں قربانی کرنا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 5552، 5551]
نمبر 14: قربانی کا جانور خود ذبح کرناسنت ہے اور دوسرے سے ذبح کروانا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: [الموطأ رواية ابن القاسم: 145، بتحقيقي و سنده صحيح، السنن الصغريٰ للنسائي 7/231 ح4424، مسند احمد 3/ 388]
نمبر 15: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائیں ذبح کی تھیں۔ [صحيح بخاري: 5559، صحيح مسلم: 1211] تنبیہ: جن روایات میں آیا ہے کہ گائے کے گو شت میں بیماری ہے، اُن میں سے ایک بھی صحیح ثابت نہیں ہے۔
نمبر 16: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بنو تغلب والے عیسائیوں کے ذبیحے نہ کھاؤ کیونکہ وہ اپنے دین میں سے سوائے شراب نوشی کے کسی پر بھی قائم نہیں ہیں۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 9/ 284 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ مرتدین اور ملحدین کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔
نمبر 17: قربانی کا گو شت خود کھانا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے۔ نیز دیکھئے فقرہ نمبر 19
نمبر 18: ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں قربانی کی اور سر منڈوایا، آپ فرماتے تھے: جو شخص حج نہ کرے اور قربانی کرے تو اُس پر سر منڈوانا واجب نہیں ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 9/ 288 وسنده صحيح، الموطأ 2/483 ح 1062]
نمبر 19: قربانی کا گوشت خود کھانا، دوستوں رشتہ داروں کو کھلانا اور غریبوں کو تحفتاً دینا تینوں طرح جائز ہے۔ مثلاًً دیکھئے [سورة الحج آيت نمبر 28، 36] اور [فتاويٰ ابن تيميه 26/309] وغیرہ
نمبر 20: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: جو شخص قربانی کے جانور (بیت اللہ کی طرف) روانہ کرے پھر وہ گم ہو جائیں، اگر نذر تھی تو اسے دوبارہ بھیجنے پڑیں گے اور اگر نفلی قربانی تھی تو اس کی مرضی ہے دوبارہ قربانی کر ے یانہ کرے۔ [السنن الكبريٰ 9/ 289 وسنده صحيح] نیز دیکھئے: [ماهنامه الحديث: 52 ص 12، 13]
نمبر 21: سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے جانوروں میں ایک کانی اونٹنی دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خریدنے کے بعد کانی ہوئی ہے تو اس کی قربانی کر لو اور اگر خریدنے سے پہلے یہ کانی تھی تو اسے بدل کر دوسری اونٹنی کی قربانی کرو۔ [السنن الكبريٰ 9/ 289 وسنده صحيح]
نمبر 22: قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ قبلہ رخ ہونا چاہئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اس ذبیحے کا گوشت کھانا مکروہ سمجھتے تھے جسے قبلہ رخ کئے بغیر ذبح کیا جاتا تھا۔ [مصنف عبدالرزاق 4/ 489 ح 8585 وسنده صحيح]
نمبر 23: منکرین حدیث قربانی کی سنیت کے منکر ہیں حالانکہ متواتر احادیث و آثار سے قربانی کا سنت ہونا ثابت ہے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر جاندار میں ثواب ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2363 وصحيح مسلم 2244]
نمبر 24: اگر قربانی کا ارادہ رکھنے والا کوئی شخص ناخن یا بال کٹوا دے اور پھر قربانی کرے تو اس کی قربانی ہو جائے گی لیکن وہ گناہگار ہو گا۔ [الشرح الممتع عليٰ زاد المستقنع لابن عثيمين 3/430]
نمبر 25: قربانی ذبح کرنے والا اور شرکت کرنے والے حصہ دار سب صحیح العقیدہ ہونے چاہئیں۔
نمبر 26: اگر کسی کی طرف سے قربانی کی جائے تو ذبح کے وقت اس کا نام لیتے ہوئے یہ کہنا چاہئے کہ یہ قربانی اس (فلاں) کی طرف سے ہے۔
نمبر 27: قولِ راجح میں قربانی کے تین دن ہیں۔ دیکھئے: [الحديث: 44 ص 6 تا11]
قربانی کے بارے میں اجماعی مسائل: آخر میں قربانی کے بارے میں امام ابن المنذر النیسابوری کی مشہور کتاب الاجماع سے اجماعی مسائل پیشِ خدمت ہیں: ➊ اجماع ہے کہ قربانی کے دن طلوع فجر (صبح صادق) سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ ➋ اجماع ہے کہ قربانی کا گو شت مسلمان فقیروں کو کھلانا مباح ہے۔ ➌ اجماع ہے کہ اگر جائز آلہ سے قربانی کرے، بسم اللہ پڑھے، حلق اور دونوں رگیں کاٹ دے اور خون بہا دے، تو ایسے قربان شدہ جانور کا کھانا مباح ہے۔ ➍ اجماع ہے کہ گونگے کا ذبیحہ جائز ہے۔ ➎ اجماع ہے کہ ذبیحہ کے پیٹ سے بچہ مردہ برآمد ہو تو اس کی ماں کی قربانی اس کے لئے کافی ہو گی۔ ➏ اجماع ہے کہ عورتوں اور بچوں کا ذبیحہ مباح ہے اگر صحیح طریقہ سے ذبح کر سکیں۔ ➐ اجماع ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اگر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کریں۔ ➑ اجماع ہے کہ دارالحرب میں مقیم (اہل کتاب) کا ذبیحہ حلال ہے۔ ➒ اجماع ہے کہ مجوس کا ذبیحہ حرام ہے، کھایانہیں جائے گا۔ ➓ اجماع ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں اور بچوں کا ذبیحہ حلال ہے (بسم اللہ کی شرط کے ساتھ) دیکھئے: [كتاب الاجماع ص 52، 53، مترجم ابوالقاسم عبدالعظيم] . . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . ماہنامہ الحدیث حضرو، شمارہ 122، صفحہ 17 تا 25
ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 25
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4366
´باب:` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ذی الحجہ کے مہینے کا چاند دیکھا پھر قربانی کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اپنے بال اور ناخن قربانی کرنے تک نہ لے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4366]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے قربانی کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن وغیرہ کاٹے نہ تراشے۔ (3)”چاند دیکھ لے۔“ مقصد یہ ہے کہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو جائے ورنہ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی اسے دیکھے۔ (4)”ارادہ رکھتا ہو“ گویا جو شخص قربانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو، اس پر یہ پابندی نہیں مگر اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ قربانی کے دن ہی حجامت بنوائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4366
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4367
´باب:` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قربانی کرنا چاہے تو وہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نہ اپنے ناخن کترے اور نہ بال کٹوائے۔“[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4367]
اردو حاشہ: ”دس دن“ یعنی دسویں دن قربانی ذبح کرنے تک۔ قربانی ذبح کرنے کے بعد حجامت بنوا لینی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4367
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2791
´قربانی کا ارادہ کرنے والا ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں بال نہ کاٹے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ اسے عید کے روز ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو جب عید کا چاند نکل آئے تو اپنے بال اور ناخن نہ کترے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2791]
فوائد ومسائل: قربانی کرنے والے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ذوالحج کے ابتدائی نو دنوں میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ لیکن جس نے قربانی نہ کرنی ہو۔ تو اس کے لئے ضروری نہیں۔ البتہ اگر وہ عید الاضحٰی کے دن حجامت وغیر ہ کرالے تو قربانی کی فضیلت وغیرہ سے محروم نہ رہے گا۔ جیسا کہ سابقہ روایات عبد اللہ بن عمرو بن العاص میں گزرا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2791
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3149
´قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں کا کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو اسے اپنے بال اور اپنی کھال سے کچھ نہیں چھونا چاہیئے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3149]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: ہاتھ نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ بال نہ کاٹے اور جلد سے بال صاف نہ کرے۔ یہ پابندی ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہونے سے عید کے دن قربانی تک ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3149
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1523
´جو قربانی کرنا چاہتا ہو وہ بال نہ کاٹے۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے۔“[سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1523]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے گا۔ (واللہ اعلم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1523
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:295
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہے، وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد اپنے جسم کے کسی بھی حصے سے بال وغیرہ نہ کٹوائے، اور نہ ناخن تراشے۔ یادر ہے کہ ایک قربانی گھر میں موجود تمام افراد کی طرف سے کی جاتی ہے تو ان میں دنوں میں کوئی بھی فرد بال نہ کٹوائے اور نہ کوئی ناخن تراشے۔ جنھوں نے قربانی نہیں کرنی سے نے ان پر دس دنوں میں بال نہ کٹوانے کی کوئی پابندی نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس نے قربانی نہیں کرنی، اگر وہ بھی ان دس دنوں میں بال وغیرہ نہ کٹوائے تو اسے بھی مکمل قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2789، اسناده صحيح)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 295
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5117
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے، تو تم میں سے جو شخص قربانی کرنا چاہے، وہ اپنے بالوں اور جسم کو نہ چھیڑے۔“ سفیان سے پوچھا گیا، بعض راوی اس کو مرفوع بیان نہیں کرتے ہیں، انہوں نے کہا، لیکن میں مرفوع بیان کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5117]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے بعض ائمہ سعید بن المسیب، ربیعہ، احمد، اسحاق اور بعض شوافع نے عشرہ ذی الحجہ میں بالوں اور ناخنوں کے کاٹنے کو حرام قرار دیا ہے، امام شافعی کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی ادب و احترام سے تعلق رکھتی ہے، تاکہ حاجیوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا ہو جائے، امام مالک کا ایک قول ہے، کہ یہ مکروہ ہے، حرام نہیں ہے اور دوسرا قول ہے کہ مکروہ بھی نہیں ہے، حدیث کا ظاہری تقاضا یہی ہے کہ ان کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، جسم کے کسی حصہ سے بھی بال کسی طرح بھی زائل نہیں کرنا چاہیے اور نہ ناخنوں کو کسی طرح چھیڑنا چاہیے، امام ابن قدامہ لکھتے ہیں، مقتضي النهي التحريم وهذا يرد القياس ويبطله نہی کا تقاضا حرمت ہے اور حدیث کے مقابلہ میں قیاس اور رائے باطل ہے۔ (المغنی، ج 13، ص 363)