الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
87. باب دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأُمَّتِهِ وَبُكَائِهِ شَفَقَةً عَلَيْهِمْ:
87. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کرنا اپنی امت کے لئے اور رونا ان کے حال پر شفقت سے۔
حدیث نمبر: 499
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ بَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَلَا قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي إِبْرَاهِيمَ: رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي سورة إبراهيم آية 36 الآيَةَ، وَقَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي، وَبَكَى، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللَّهُ: يَا جِبْرِيلُ، اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَلَا نَسُوؤُكَ ".
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سےروایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابراہیم رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ اور عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے قول اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف فرما دے تو بلاشبہ توہی غالب حکمت والا ہے کی تلاوت فرمائی اور اپنے ہاتھ اٹھ کر فرمایا: اے اللہ! میری امت، میری امت اور (بے اختیار) روپڑے۔ اللہ تعالیٰ نےحکم دیا: اے جبریل رضی اللہ عنہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، جبکہ تمہارا رب زیادہ جاننےوالا ہے، ان سے پوچھو کہ آپ کو کیا بات رلا رہی ہے؟ جبریل رضی اللہ عنہ آپ کےپاس آئے اور (وجہ) پوچھی تو رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کہی تھی ان کو بتائی، جبکہ وہ (اللہ اس بات سے) زیادہ اچھی طرح آگاہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبریل! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم آپ کی امت کے بارے میں آپ کو راضی کریں گے اور ہم آپ کو تکلیف نہ ہونے دیں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم ؑ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تلاوت فرمائی: اے میرے رب! انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا، تو جس نے میری پیروی کی، وہ میرا ہے (یعنی میرے راستے پر ہے) اور جس نے میری نافرمانی کی، تو تُو بے شک بخشنے والا مہربان ہے۔ (ابراہیم: 36) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰؑ کے قول کی تلاوت فرمائی: اور اگر تو انھیں عذاب دے گا تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں معاف فرمائے گا، تو تُو بلا شبہ سب پر غالب اور انتہائی حکمت والا ہے۔ (المائدہ: 118) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی: اے اللہ! میری امت! میری امت! اور آپؐ رو دیے، تو اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کو حکم دیا: اے جبرائیل! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ! اور ان سے پوچھو (حالانکہ اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے) کیوں رو رہے ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ؑ آئے اور پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات اسے بتائی، اور اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبریل! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جا کر انھیں بتا دو! ہم تمھیں تمھاری امت کے بارے میں خوش کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 202
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (8873)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 499 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 499  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
رسول اکرم ﷺ اپنی امت کے لیے انتہائی رحیم وشفیق ہیں اوراپنی امت کی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضورگریہ وزاری فرماتے تھے۔
(2)
اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ ﷺ کا مقام ومرتبہ انتہائی بلندوبالاہے۔
جب آپ ﷺ امت کے گناہوں کے مواخذہ کے تصور سے روئے،
تو فوراً حضرت جبریل ؑ کو آپ کی خدمت میں رونے کا سبب پوچھنے کے لیے بھیجا،
حالانکہ اللہ تعالیٰ کو سبب کا خوب علم تھا۔
(3)
آداب دعا میں ہاتھ اٹھانابھی داخل ہے۔
(4)
امت کے گناہ گاروں کے لیے انتہائی امید افزا بات ہے،
بلکہ عظیم بشارت ہے کہ آیت مبارکہ ﴿وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ﴾ اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
کاتعلق آخرت سےبھی ہے،
اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو اپنی امت کے بارے میں صرف راضی ہی نہیں فرمائےگا،
بلکہ آپ ﷺ کو رنج وغم سےمحفوظ فرمائے گا،
اور یہ تبھی ہو گا جب آپ کی امت کے تمام افرادنجات پا جائیں۔
اگر آپ ﷺ کی امت کا کوئی فرد اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں رہ جائے گا،
تو یہ تو آپ کے لیے رنجیدگی کا باعث رہے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 499