حیوہ بن شریح نے ابوہانی سے روایت کی، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن حبلی سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑنے والی کوئی بھی جماعت جو اللہ کی راہ میں جنگ کرتی ہے، پھر وہ لوگ مالِ غنیمت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ آخرت کے اجر سے دو حصے فورا حاصل کر لیتے ہیں، ان کے لیے ایک باقی رہ جاتا ہے اور اگر وہ غنیمت حاصل نہیں کرتے تو (آخرت میں) ان کا اجر پورا ہو گا۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جماعت اللہ کی راہ میں جہاد کرتی ہے اور انہیں غنیمت حاصل ہو جاتی ہے، تو انہیں آخرت کے اجر سے دو تہائی اجر مل جاتا ہے اور ان کا ایک تہائی حصہ رہ جاتا ہے اور اگر انہیں غنیمت نہیں ملتی تو ان کا پورا اجر باقی رہتا ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4925
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مجاہد خلوص نیت سے جہاد میں حصہ لیتا ہے، غنیمت اس کا مطلوب و مقصود نہیں ہوتی، لیکن وہ صحیح سالم واپس آ جاتا ہے اور اسے غنیمت بھی مل جاتی ہے، تو مجاہد کے لیے جو تین انعامات ہیں، سلامتی، غنیمت اور آخرت کا اجروثواب، ان میں سے دو انعامات وہ حاصل کر لیتا ہے اور صرف تیسرا باقی رہ جاتا ہے، لیکن اگر وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے، یا غنیمت سے محروم ہو جاتا ہے، تو اس اصول کے مطابق کہ اجر بقدر مشقت و تکلیف ہے، اس کے اجروثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ جو بچ نہ سکا، یا اسے غنیمت نہ ملی اس کی مشقت و کلفت اس سے زائد ہے، جو بچ گیا اور غنیمت بھی حاصل کر لی، مثلا اہل بدر کو اگر غنیمت حاصل نہ ہوتی تو ان کا اجروثواب اس سے بھی زائد ہو جاتا جو انہیں اب حاصل ہے، اس لیے اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ اہل اُحد کا درجہ اہل بدر سے بلند ہونا چاہیے، کیونکہ ان میں سے بہت سے شہید ہو گئے اور باقی رہنے والوں کو غنیمت نہیں ملی۔