مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔" حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے یہاں تک کہ ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی تین سندوں سے بیان کرتے ہیں، کہ مسروق نے کہا، ہم نے عبداللہ یعنی ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا، ”جو اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جاتے ہیں، ان کو مردے خیال نہ کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، رزق دئیے جاتے ہیں۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4885
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء کی ارواح جنت میں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں، یعنی ان کے جسم و بدن کی جگہ انہیں سبز پرندوں کی شکل میں جسم ملا ہے، جس میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور عرش سے لٹکے ہوئے قنادیل میں رہتے ہیں اور ان کی دنیا میں آنے کی خواہش پوری نہیں ہوتی، اس جہاں سے ان کا تعلق منقطع ہو جاتا ہے اور برزخی جہاں سے ان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے، لیکن عام مومنوں کی روح کو پرندہ کی شکل دی جاتی ہے، جبکہ شہید کی روح سبز پرندے کے پیٹ میں ہے، اس لیے دونوں میں فرق ہے، دونوں کا مقام و مرتبہ یکساں نہیں ہے اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوزی میں بھی برابر نہیں ہے، لیکن اس جہان میں اس کی مکمل تفصیلات کو جاننا ممکن نہیں ہے، لیکن اس حدیث سے تناسخ یا آواگون پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ تناسخ میں روح اسی جہان فانی میں ایک جسم سے نکل کر دوسرے جسم میں داخل ہوتی ہے، پھر اس سے نکل کر کسی دوسرے میں داخل ہوتی ہے، اس طرح عذاب و ثواب کا چکر اسی دنیا میں چلتا رہتا ہے، جبکہ شہداء کی ارواح اس دنیا کی بجائے برزخ کے عالم میں سبز پرندوں میں ہیں، دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور پھر قیامت تک ان سے نکل کر کسی اور جسم میں نہیں جانا ہے اور تناسخ میں تو یہ چکر بار بار اسی دنیا میں چل رہا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، جنت اب بھی موجود ہے، جہاں شہداء کی ارواح نعمتوں سے بھرپور طریقہ سے متمتع ہو رہی ہیں۔