اسحٰق بن موسیٰ انصاری نے کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جابر نے اسی سند سے خبر دی اور کہا: بنو گزارہ کے آزاد کردہ غلام رزیق۔ امام مسلم نے کہا: یہ حدیث معاویہ بن صالح نے بھی ربیعہ بن یزید سے روایت کی، انہوں نے مسلم بن قرظہ سے، انہوں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں۔اور امام صاحب فرماتے ہیں، یہی روایت معاویہ بن صالح نے بھی اپنی سند سے بیان کی ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4806
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث میں دو قسم کے حکمرانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، ایک وہ حکمران جو اپنی رعایا کے ہمدرد اور خیرخواہ ہیں، ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کی مشکلات کو حل کرتے ہیں، اس لیے لوگ ان سے پیار و محبت کرتے ہیں، ان کے حق میں دعائیں کرتے ہیں اور ان کی موت کے بعد بھی ان کے جنازہ میں شرکت کرتے ہیں، دوسرے وہ حکمران جو اپنے مفادات کے اسیر ہیں، لوگوں کے مفادات اور مشکلات کا انہیں کوئی احساس نہیں ہے، اپنے سوا کسی سے انہیں ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے سوا کسی کے خیرخواہ ہیں، یہ درحقیقت اپنے ہی دشمن ہیں، لوگوں کی بددعائیں لیتے ہیں، ان کے غیظ و غضب اور نفرت و کراہت کا نشانہ بنتے ہیں، ان کے مرنے پر کوئی ان کے لیے آنسو نہیں بہاتا، اس طرح ایک دوسرے انداز سے حکمرانوں کو اپنی رعایا کی ہمدردی اور خیرخواہی پر ابھارا گیا ہے، تاکہ وہ ان کی نیک دعائیں لیں اور ان کی محبت و مودت کا مرکز بنیں، ان کی قہر آلود آنکھوں کا نشانہ نہ بنیں۔