حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور فرمایا: میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "بدترین راعی، سخت گیر اور ظلم کرنے والا ہوتا ہے، تم اس سے بچنا کہ تم ان میں سے ہو۔" اس نے کہا: آپ بیٹھیے: آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چھلنی میں بچ جانے والے آخری حصے کی طرح ہیں۔ (آخر میں چونکہ تنکے، پتھر، بھوسی بچ جاتے ہیں، اس لیے) انہوں نے کہا: کیا ان میں بھوسی، تنکے، پتھر تھے؟ یہ تو ان کے بعد ہوئے اور ان کے علاوہ دوسروں میں ہوئے
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائذ بن عمرہ رضی اللہ تعالی عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ہیں، عبیداللہ بن زیاد کے پاس گئے اور کہا، اے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، ”بدترین، ذلیل (نگران) سخت گیر ہے تو ان میں سے ہونے سے بچاؤ کر۔“ تو اس نے جواب دیا، بیٹھئے، تو تو بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا چھان بورا ہے، تو حضرت عائذ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا ان میں چھان بورا بھی تھا؟ چھان بورا تو ان کے بعد اور دوسروں میں پیدا ہوا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4733
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) خُطَمَة: بہت زیادہ توڑنے پھوڑنے والا، جو رعایا کے ساتھ نرمی، کی بجائے سختی اور شدت سے پیش آئے اور ان کو ظلم وستم کا نشانہ بنائے۔ (2) نُخَالة: چھان بورا، یعنی تو صحابہ میں سے کوئی مقام ومرتبہ نہیں رکھتا، محض نکما اور ردی ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیں، اس طرح ابن زیاد نے ان سے انتہائی ناشائستہ اور گستاخانہ انداز اختیار کیا، تو انہوں نے انتہائی وقار اور متانت کے ساتھ بے باکانہ انداز میں پوچھا، کہ کیا، وہ لوگ جو تمام انسانوں میں برگزیدہ اور پسندیدہ تھے اور پوری امت کے پیشوا اور رہنما تھے، جو بعد والے لوگوں کے لیے قدوہ اور نمونہ تھے، ان میں کوئی نکما اور حقیر ہو سکتا ہے، ”یہ جنس تو بعد والے لوگوں میں پیدا ہوئی ہے، اس لیے تم اپنا خیال کرو۔ “