جریر بن حازم نے حرملہ مصری سے، انہوں نے عبدالرحمان بن ابی شماسہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مانند روایت کی۔ (4724) لیث نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "سن رکھو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی (لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی (رعایت پر مامور) ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال میں راعی ہے، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا، سن رکھو! تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4723
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کسی عداوت ودشمنی کی بنا پر یا نامناسب مسلوں سے اشتعال میں آ کر کسی کے فضل و کمال یا خوبی کے اعتراف سے بخل سے کام نہیں لینا چاہیے، حضرت محمد بن ابی بکر کو قتل کر دیا گیا تھا اور کس طرح قتل کیا گیا، اس میں اختلاف ہے، ایک قول ہے، میدان جنگ میں قتل کیے گئے، دوسرا قول ہے، وہ حضرت عمرو بن عاص کے پاس لایا گیا، انہوں نے قتل کروایا، کیونکہ وہ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، تفصیل کے لیے الاستيعاب علی هامش الاصابة ج (3) ص (349) ۔ (348) مطبعہ دارالفکر بیروت دیکھئے۔