حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اس اثنا میں ایک آدمی اپنی سواری پر آپ کے پاس آیا، کہا: پھر وہ اپنی نگاہ دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو، وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کے ساتھ نیکی کرے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد از ضرورت زادِ راہ ہے وہ اس کے ذریعے سے ایسے شخص کی خیرخواہی کرے جس کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔کہا: آپ نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا جس طرح کیا، حتی کہ ہم نے خیال کیا کہ زائد مال پر ہم میں سے کسی کا کوئی حق نہیں ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، اس دوران اچانک ایک آدمی اپنی سواری پر آیا اور اپنی نظر دائیں بائیں دوڑانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری کا اونٹ ہو تو وہ اس کے ذریعہ اس کی خیرخواہی کرے، جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زائد توشہ ہو، وہ اس کے ساتھ اس سے حسن سلوک کرے، جس کے پاس زادراہ نہیں ہے۔" حضرت ابو سعید ؓ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی بہت سی اقسام کا ذکر کیا حتی کہ ہم نے یہ سمجھا، ہم میں سے کسی کا فالتو چیز پر حق نہیں ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4517
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فَضل: ضرورت سے زائد، فالتو۔ (2) فليَعُد به: ضرورت مند پر اس کے ساتھ احسان کرے، ہمدردی اور خیرخواہی کا اظہار کرے۔ فوائد ومسائل: ایک انسان اونٹنی پر آیا جو تھکی ہاری ہوئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر دائیں بائیں دیکھنے لگا اور اونٹنی بھی دائیں بائیں پھیری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے سواری کا انتظام فرما دیں، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فالتو چیز سے ہمدردی اور خیرخواہی کرنے کی تلقین کی اور بعض حضرات نے یہ معنی کیا ہے کہ وہ فخر و مباہات کے اظہار کے لیے اونٹنی دائیں بائیں گھمانے لگا تاکہ یہ بات جتلا سکے، میرے پاس بہت سی سواریاں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنانے کے لیے ساتھیوں کو خیرخواہی اور ہمدردی کرنے کی تلقین کی تاکہ وہ ضرورت سے زائد سواریوں کے ذریعہ ضرورت مندوں پر احسان کرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4517
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1663
´مال کے حقوق کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اتنے میں ایک شخص اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر آیا اور دائیں بائیں اسے پھیرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس توشہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1663]
1663. اردو حاشیہ: ➊ یہ اونٹنی والا جو اسے گھما رہا تھا شاید تھک گئی تھی۔ اور چلنے سے عاجز تھی۔ اس شخص نے یہ انداز اختیار کیا تاکہ نبی کریمﷺ سے دیکھ لیں۔ اور کوئی دوسری عنایت فرمادیں۔ ➋ انتہائی ضرورت اور تنگی کے احوال میں زائد مال محتاجوں تک پہنچانا جیسے کہ قحط میں ہوتا ہے۔واجب ہے۔اور عام حالات میں مستحب اور مندوب ہے اسی قسم کے ارشادات کی بنا پر حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے جو غنی اور اصحاب وسعت تھے۔مال جمع رکھنے پر تکرار کیا کرتے تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1663