ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں یہ بھی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے اس کی زمین خریدی تو اس آدمی کو، جس نے زمین خریدی تھی، اپنی زمین میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا۔ جس نے زمین خریدی تھی، اس نے اس (بیچنے والے) سے کہا: اپنا سونا مجھ سے لے لو، میں نے تم سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ اس پر زمین بیچنے والے نے کہا: میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ تھا تمہیں بیچ دیا تھا۔ کہا: وہ دونوں جھگڑا لے کر ایک شخص کے پاس گئے، تو جس کے پاس وہ جھگڑا لے کر گئے تھے اس نے کہا: کیا تمہاری اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ تو اس نے کہا: (اس سونے کے ذریعے سے) لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور اس میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کرو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمام بن منبہ بہت سی روایات بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک انسان نے دوسرے انسان سے اس کی جاگیر (زمین) خریدی تو جس آدمی نے جائیداد (زمین) خریدی تھی، اسے اس کی زمین سے ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا تو زمین خریدنے والے نے مالک سے کہا، مجھ سے اپنا سونا لے لیجئے، کیونکہ میں نے تم سے صرف زمین خریدی ہے، تجھ سے سونا نہیں خریدا تو زمین بیچنے والے نے کہا، میں نے تمہیں زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب ہی بیچ دیا ہے تو انہوں نے ایک آدمی کو فیصل مان لیا تو جس کے پاس دونوں مقدمہ لے کر گئے تھے، اس نے پوچھا کیا تمہاری اولاد ہے؟ تو ان میں سے ایک نے کہا میرا بیٹا ہے اور دوسرے نے کہا میری بیٹی ہے، فیصلہ کرنے والے نے کہا، بچے کی بچی سے شادی کر دو اور اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کر دو۔“
اشترى رجل من رجل عقارا له فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع منك الذهب وقال الذي له الأرض إنما بعتك الأرض وما فيها فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه
اشترى رجل من رجل عقارا له فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع منك الذهب فقال الذي شرى الأرض إنما بعتك الأرض وما فيها قال فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه
رجل اشترى عقارا فوجد فيها جرة من ذهب فقال اشتريت منك الأرض ولم أشتر منك الذهب فقال الرجل إنما بعتك الأرض بما فيها فتحاكما إلى رجل فقال ألكما ولد فقال أحدهما لي غلام وقال الآخر لي جارية قال فأنكحا الغلام الجارية ولينفقا على أنفسهما
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4497
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا خیال ہے، جس آدمی کو فیصل تسلیم کیا گیا ہے وہ حضرت داؤد علیہ السلام تھے جیسا کہ وھب بن منبہ نے بیان کیا ہے اور اختلاف کا سبب یہ ہے خریدار یہ سمجھتا تھا کہ میں نے صرف زمین خریدی ہے اور ایسی صورت میں زمین کا دفینہ مالک کا ہی ہوتا ہے اور فروخت کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ میں نے زمین بیچ دی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس میں جو کچھ ہے وہ بھی دے دیا ہے اور اس صورت میں مالک خریدار ہوتا ہے، اس لیے باہمی اختلاف ہو گیا اور جس کو انہوں نے فیصلہ کے لیے حکم تسلیم کیا تھا، اس نے ان کے ورع اور تقویٰ کو دیکھ کر یہی مناسب خیال کیا کہ اس سے دونوں کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا جائے، اس لیے اس کو ان کی اولاد کی شادی پر خرچ اور دونوں کو اس سے فائدہ اٹھانے اور صدقہ کرنے کی تلقین کی، اس سے ائمہ حجاز امام مالک، شافعی اور احمد نے یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اگر فریقین، حکومتی عدالت کے پاس مقدمہ لے جانے کی بجائے، اگر کسی دوسرے انسان کو حکم مان لیں تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہو گا اور حکومتی قاضی اس کو توڑنے کا مجاز نہیں ہو گا، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک، قاضی کی توثین ضروری ہے۔ (تکملہ ج 2 ص 603) لیکن امام ابن قدامہ نے لکھا ہے، اگر دو انسان کسی کو صحیح حکم تسلیم کرتے ہیں اور وہ اس کی اہلیت رکھتا ہے تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہو گا، امام ابو حنیفہ کا موقف بھی یہی ہے اور امام شافعی کا ایک قول یہ ہے کہ وہ مطمئن ہوں تو نافذ ہو گا، وگرنہ نہیں، المغنی، ج 14، ص 92۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4497
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2511
´جس شخص کو دفینہ (رکاز) مل جائے اس کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک زمین خریدی، اس میں اسے سونے کا ایک مٹکا ملا، خریدار بائع (بیچنے والے) سے کہنے لگا: میں نے تو تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا، اور بائع کہہ رہا تھا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہارے ہاتھ بیچا ہے، الغرض دونوں ایک شخص کے پاس معاملہ لے گئے، اس نے پوچھا: تم دونوں کا کوئی بچہ ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: ہاں میرے پاس ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میرے پاس ایک لڑکی ہے، تو اس شخص نے کہا: تم دونوں اس لڑکے کی ش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2511]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سابقہ امتوں کے واقعات بطور عبرت ونصیحت بیان کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ قرآن مجید یا صحیح احادیث سےثابت ہوں، ضعیف من گھڑٹ اورموضوع روایات سے وعظہ وخطبات کومزین کرنا جائز نہیں۔
(2) گزشتہ امتوں کے شرعی مسائل میں سے صرف ان مسائل پرعمل کیا جا سکتا ہےجو ہماری شریعت کےمنافی نہ ہوں۔
(3) خرید و فروخت میں دیانت داری اورایک دوسرے کی خیر خواہی باعث برکت ہے۔
(4) اختلافی معاملے میں ایسی صورت اختیار کرلینا بہت اچھی بات ہے جس پر دونوں فریق راضی ہوں۔
(5) مدفون خزانہ اس شخص کی جائز ملکیت ہے جسے وہ ملے بشرطیکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کس نے دفن کیا تھا۔
(6) مدفون خزانہ پورے کا پورا اپنی ذات پرخرچ نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری شریعت میں اس کےلیے پانچویں حصے کی حد مقرر ہے یعنی بیس فی صد بطور زکاۃ ادا کرکے باقی ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2511
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3472
3472. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی۔ جس نے زمین خریدی تھی اس نے زمین میں ایک گھڑا پایا جو سونے سے بھرا ہوا تھا تو اس نے فروخت کنندہ سے کہا: تم اپنا سونا مجھ سے لے لو کیونکہ میں نے تجھ سے صرف زمین خریدی تھی سونا نہیں خریدا تھا۔ زمین کے مالک نے کہا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں تھا سب تجھے فروخت کردیاتھا۔ آخر وہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنامقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا: کیا تم دونوں کی اولادہے؟ ان دونوں میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے۔ دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ اس(فیصلہ کرنے والے)نے کہا: اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردو اور اس مال کو ان دونوں پر خرچ کردو، نیز کچھ صدقہ وخیرات کرتے ہوئے محتاجوں کو دے دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3472]
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒ نے کہا کہ شافعہ کا مذہب یہ ہے اگرکوئی زمین بیچے پھر اس میں سےخزانہ نکلے تووہ بائع ہی کا ہوگاجیسے گھر بیچے اس میں کچھ اسباب ہوتو وہ بائع ہی کوملے گا مشتری شرط کرلے تو دوسری بات ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3472
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3472
3472. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی۔ جس نے زمین خریدی تھی اس نے زمین میں ایک گھڑا پایا جو سونے سے بھرا ہوا تھا تو اس نے فروخت کنندہ سے کہا: تم اپنا سونا مجھ سے لے لو کیونکہ میں نے تجھ سے صرف زمین خریدی تھی سونا نہیں خریدا تھا۔ زمین کے مالک نے کہا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں تھا سب تجھے فروخت کردیاتھا۔ آخر وہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنامقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا: کیا تم دونوں کی اولادہے؟ ان دونوں میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے۔ دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ اس(فیصلہ کرنے والے)نے کہا: اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردو اور اس مال کو ان دونوں پر خرچ کردو، نیز کچھ صدقہ وخیرات کرتے ہوئے محتاجوں کو دے دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3472]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بہت محتاط اور پرہیز گار تھے۔ البتہ ہمارے اس پر آشوب دور میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ معمولی معمولی چیز میں بددیانتی کرتے ہیں اور لوگوں کے مال غصب کرنے میں فخر کرتے ہیں۔ 2۔ ہماری شریعت میں ایسے مال کے متعلق یہ تفصیل ہے کہ اگر قرائن سے معلوم ہو جائے کہ وہ دور جاہلیت کا مدفون خزانہ ہے تو وہ رکازہے اور اس سے پانچواں حصہ بیت المال کو ادا کرنا ہوگا۔ اگر وہ مال دور اسلام کا ہے تو وہ لقطے کے حکم میں ہو گا اور اگر پتہ نہ چل سکے تو تمام مال بیت المال میں جمع کردیا جائے جو مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات میں صرف کیا جائے گا۔ 3۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ جو کوئی زمین کا مالک ہو جائے تو وہ عطا کردہ باطن کی ہر چیز کا مالک ہو جاتا ہے اور زمین کا مالک بنتے وقت اگر اسے زمین کے باطن میں کسی چیز کا علم نہ ہو تو یہ اس کی ملکیت کو ساقط نہیں کرتا۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اگر کوئی زمین بیچے پھر اس میں سے خزانہ نکل آئے تو وہ بیچنے والے کا ہو گا جیسا کہ گھر بیچنے کی صورت میں اس کا مال واسباب بیچنے والے کا ہوتا ہے ہاں اگر خریدنے والا شرط کر لے تو دوسری بات ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3472