الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4419
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب ذوالحجہ میں آخری حج سے 33ھ میں واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری خطبہ دیا تو اس میں خلافت کے مسئلہ پر روشنی ڈالی اور اس سے پہلے رجم کا مسئلہ بھی بیان کیا اور رجم کا مسئلہ تورات میں بھی موجود تھا، اس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی مرد اور عورت کو سنگسار کیا تھا، اس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کا حکم دیا، لیکن یہ حکم قرآن مجید میں نہیں لکھوایا گیا، اس لیے کتاب اللہ سے مراد، اللہ کا قانون ہے، جیسا کہ حدیث عسیف اور حدیث ولاء میں کتاب اللہ سے مراد اللہ کا حکم ہے، جو سنت سے ثابت ہے اور بقول بعض اس سے مراد سورہ المائدہ کی آیت ﴿وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّـهِ﴾(آیت نمبر 49-50) ہیں۔ اور بقول بعض اس سے مراد منسوخ التلاوۃ آیت (الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) ہے۔ لیکن یہ آیت چونکہ قرآن نہیں ہے اس لئے اس میں قرآن والی شروط بھی موجود نہیں۔ امام مالک کے نزدیک اگر غیر شادی شدہ عورت حاملہ ہو تو وہ زانیہ تصور کی جائے گی اور اگر وہ اپنا مجبور و مکرہ ہونا ثابت نہ کر سکے تو اس کو سزا دی جائے گی، لیکن امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک سزا کے لیے محض حاملہ ہونا کافی نہیں ہے، جب تک وہ اعتراف نہ کرے یا گواہ قائم نہ ہوں۔