حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر فاطمہ (بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی) ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔" چنانچہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی پناہ میں آ گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! بالفرض اگر فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4413
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ بنو مخزوم کی ایک اور عورت ہے جس کا نام ام عمرو بنت سفیان بن عبدالاسد ہے، جو فاطمہ بنت الاسود کی چچا زاد ہے اس نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر رات کو ایک قافلہ والوں کا کپڑوں کا صندوق یا سوٹ کیس چرایا تھا، انہوں نے اس کو پکڑ کر باندھ لیا اور صبح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، اس نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی، ان کی تہبند میں اپنے ہاتھ چھپا لیے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی تہبند سے اس کے ہاتھ نکالے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی بالفرض یہ حرکت کر لیتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا، “ پھر اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، تفصیلی واقعہ کے لیے۔ (طبقات ابن سعد، ج 8، ص 263) جمہور کے نزدیک ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا اور دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، اگر نہ ہو تو پھر بایاں کاٹا جائے گا۔