معمر نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: بنو مخزوم کی ایک عورت عاریتا سامان لیتی تھی اور پھر اس کا انکار کر دیا کرتی تھی، (پھر اس نے چوری کر ڈالی) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس پر اس کے گھر والے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بات کی تو انہوں نے اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی، پھر لیث اور یونس کی حدیث کی طرح بیان کیا
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت تھی، جو سامان ضرورت کی چیز عاریتاً لے لیتی اور پھر انکار کر دیتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا، اس کے خاندان کے لوگ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے سفارش کی درخواست کی، انہوں نے اس عورت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4412
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بنو مخزوم کی اس عورت کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ ضرورت کی چیز مانگ کر لے جاتی اور پھر لے جانے سے انکار کر دیتی کہ میں تو کوئی چیز مانگ کر نہیں لے گئی تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو چوری کی عادت پڑ گئی تو اس کا ہاتھ چوری کرنے پر کاٹا گیا، لیکن چوری کا پیش خیمہ اور سبب عاریہ تھا، اس لیے یہاں اس کی طرف منسوب کر دیا گیا، اس لیے جمہور امت کے نزدیک عاریتاً لی گئی چیز کا انکار کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، ہاں امام اسحاق اور ابن حزم کا نظریہ یہ ہے کہ عاریۃً چیز کے انکار پر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے گا، امام احمد کا ایک قول یہی ہے، لیکن علامہ ابن قدامہ نے احمد کے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے، جو جمہور کے مطابق ہے۔