ابن عون نے کہا: ہمیں ابو رجاء مولیٰ ابی قلابہ نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے بیٹھا تھا تو انہوں نے لوگوں سے کہا: تم قسامہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ عنبسہ نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح حدیث بیان کی ہے۔ اس پر میں نے کہا: مجھے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔ اور انہوں نے ایوب اور حجاج کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔ ابوقلابہ نے کہا: جب میں فارغ ہوا تو عنبسہ نے سبحان اللہ کہا (تعجب کا اظہار کیا۔) ابوقلابہ نے کہا: اس پر میں نے کہا: اے عنبسہ! کیا تم مجھ پر (جھوٹ بولنے کا) الزام لگاتے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں بھی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اسی طرح حدیث بیان کی ہے۔ اے اہل شام! جب تم تم میں یہ یا ان جیسے لوگ موجود ہیں، تم ہمیشہ بھلائی سے رہو گے۔
حضرت ابو قلابہ بیان کرتے ہیں، میں عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، تو انہوں نے لوگوں سے پوچھا، قسامہ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ تو حضرت عنبسہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی ہے، ابو قلابہ کہتے ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ہی حدیث سنائی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے، آگے حجاج اور ایوب کی طرح مذکورہ بالا روایت بیان کی، ابو قلابہ کہتے ہیں، جب میں ساری حدیث سن چکا، تو عنبسہ نے کہا، سبحان اللہ،
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4356
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام مسلم نے یہ حدیث انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کی ہے، اور امام بخاری، باب القسامہ، کتاب الدیات میں اس کو تفصیل سے لائے ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ قسامہ کے قائل نہیں تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے قصاص کے قائل نہیں تھے، کیونکہ مدعی علیہ کے خلاف بینہ قائم نہیں ہو سکتی، اور عدم مشاہدہ کی بناء پر قسمیں اٹھانا بھی مشکل ہے، لیکن لوث و عداوت کی بناء پر کسی محلہ پر الزام عائد ہو سکتا ہے اور ان سے براءت کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، جس سے انکار کی صورت میں دیت لی جا سکتی ہے، لیکن عام طور پر شارحین کا خیال یہی ہے کہ ابو قلابہ قسامہ کے قائل نہیں تھے، عکل اور عرینہ کے بارے میں حدیث کو ان کے ارتداد کی سزا قرار دیتے تھے، اور قتل صرف تین صورتوں میں جائز سمجھتے تھے۔ (1) شادی شدہ زنا کا مرتکب ہو۔ (2) کوئی کسی کو قتل کر دے۔ (3) اسلام لا کر اس سے ارتداد اختیار کرے، ان تین صورتوں کے سوا کسی کو قتل کرنا درست نہیں سمجھتے تھے۔