زہیر، ابومعاویہ اور عیسیٰ بن یونس سب نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، زہیر اور ابو معاویہ کی حدیث میں آپ کے فرمان: "تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت ہے" کے بعد یہ اضافہ ہے، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: بڑھاپے کی اس گھڑی کے باوجود بھی (جاہلیت کی عادت باقی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں۔" ابو معاویہ کی روایت میں ہے: "ہاں، تمہارے بڑھاپے کی اس گھڑی کے باوجود بھی "عیسیٰ کی حدیث میں ہے: "اگر وہ اس پر ایسی ذمہ داری ڈال دے جو اس کی طاقت سے باہر ہے تو (بہتر ہے) اسے بیچ دے۔" (غلام پر ظلم کے گناہ سے بچ جائے۔) زہیر کی حدیث میں ہے: "تو وہ اس (کام) میں اس کی اعانت کرے۔" ابو معاویہ کی حدیث میں وہ اسے بیچ دے اور وہ اس کی اعانت کرے کے الفاظ نہیں ہیں اور ان کی حدیث آپ کے فرمان: اس پر ایسی ذمہ داری نہ ڈالے جو اس کے بس سے باہر ہوپر ختم ہو گئی
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے، اعمش کی مذکورہ بالا سند ہی سے بیان کرتے ہیں، زہیر اور ابو معاویہ کی روایت میں ان الفاظ کے بعد کہ ”تو ایسا انسان ہے، جس میں جاہلیت کی خصلت ہے۔“ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ جواب ہے، کہ بڑھاپے کی اس حالت میں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ ابو معاویہ کی روایت میں ہے، ”ہاں۔ تیرے بڑھاپے کی گھڑی میں بھی۔“ اور عیسیٰ کی روایت میں ہے، ”تو اس کی مدد کرے۔“ ابو معاویہ کی روایت میں، ”اس کو بیچنے یا اس کی مدد کرنے کا۔“ ذکر نہیں ہے، اس کی روایت بیان ختم ہو گئی ہے، ”اس کی قدرت سے زائد ذمہ داری نہ ڈالے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4314
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگر انسان اپنے غلام کو ایسے کام کا مکلف ٹھہراتا ہے، جس کے کرنے سے غلام عاجز اور بےبس ہو، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ غلام کا حق ادا نہیں کر سکتا، اور اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈال کر گناہ گار ہو رہا ہے، اس لیے اگر اس کا تعاون و مدد نہیں کر سکتا، تو اس کو بیچ کر کوئی اور طاقتور غلام خرید کر گناہ سے بچ جائے، لیکن عام روایات میں بیچنے کی بجائے اعانت و مدد کرنے کا ذکر ہے۔