سفیان نے ابوزناد سے، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند یا اسی کے ہم معنی روایت بیان کی
امام صاحب ایک اور سند سے بھی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اس کی مثل یا اس کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4287
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) لم يحنث کا مقصد بقول بعض یہ ہے، اگر سلیمان علیہ السلام ان شاءاللہ کہہ لیتے، تو ان کی آرزو اور تمنا پوری ہو جاتی اور ہر بیوی مجاہد جوان جنتی، اور ان کی قسم پوری ہو جاتی، اور وہ حانث نہ ہوتے اور بقول بعض یہ مقصد ہے اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے، تو یہ قسم میں استثناء ہوتا اور قسم منعقد نہ ہوتی، اس لیے آرزو پوری نہ ہونے کے باوجود بھی حانث نہ ہوتے، یعنی ان کی قسم نہ ٹوٹتی۔ (2) اس حدیث پر سید ابو الاعلیٰ مودودی کا حسابی طریقہ سے اعتراض کرنا، انتہائی حیران کن ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے نیک بندوں کو یہ توفیق دیتا ہے کہ وہ چند گھنٹوں میں وہ کام کر لیتے ہیں، جو عام انسان دن بھر میں بھی نہیں کر سکتا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب تعلیم و تربیت میں ایک آدمی کے بارے میں لکھا ہے، کہ اس نے تین دن میں پورا قرآن مجید لکھ ڈالا تھا، حصہ اول 63، امام ابن تیمیہ کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے بعض سوالوں کے جواب میں، ظہر سے عصر کے درمیان غوروفکر اور سوچ و بچار کر کے ایک رسالہ لکھ ڈالا، جس کو عام عالم اتنے وقت میں پڑھ بھی نہیں سکتا، بعض حفاظ انتہائی قلیل عرصہ میں قرآن مجید مکمل کر لیتے ہیں، حتی کہ امام قسطلانی نے تو شرح بخاری میں ایک امام کے بارے میں لکھا ہے، وہ بعض دفعہ روزانہ پندرہ دفعہ قرآن پڑھ لیتے تھے۔ (ارشاد الباری، ج 5، ص 356۔ حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ مکتبہ سلفیہ لاہور، ص 168) علامہ عبدالعزیز ہر پھر ہاروی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی نے صرف چالیس سال کی زندگی میں اس قدر متنوع اور ضخیم کتب لکھی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، تو اگر ایک نیک اور متقی انسان کے اوقات میں برکت ہو سکتی ہے، کہ وہ کم وقت میں بہت کام کر جاتا ہے، تو ایک نبی کے اوقات میں برکت کا پیدا ہو جانا اور محدود وقت میں بہت کام کر لینا کیوں کر قابل تعجب یا قابل انکار ٹھہر سکتا ہے، اور اس کے لیے یہ کہنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے کہ، ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشاء اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا، اگر بیویوں کی تعداد کم سے کم ساٹھ ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ چھ بیویوں کے حساب سے دس گھنٹے مباشرت کرتے رہے، کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے، اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضور نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ (تفہیم القرآن تفسیر سورہ ص ج 4، ص 337) حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ میں نے خود ایک غیر مسلم ہندوستانی ماہر جنسیات کی کتاب میں پڑھا ہے، کہ ایک انسان نے مسلسل اَسی (80) عورتوں سے مباشرت کی اور آخری کے پاس جا کر جان کی بازی ہار گیا، اگر ایک انسان اَسی (80) عورتوں سے بغیر دم لیے مباشرت کر سکتا ہے تو ایک نبی جس میں عام انسانوں کے مقابلہ پر قوت بہت ہی زیادہ ہوتی ہے، اس کے فعل پر عقل کیوں دنگ رہ سکتی ہے، یا اس کو صریح عقل کے خلاف قرار دیا جا سکتا ہے، کیا عقل کے مالک یا ٹھیکیدار ہر چند عقل پرست ہیں، اس غیر مسلم ہندوستانی کی بات تو جھوٹ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ عملاً یہ بالکل ممکن ہے، نبی کی قوت کو اپنی قوت پر قیاس کرنا ہی غلط ہے، اور فی بیوی دس منٹ ضروری بھی نہیں ہے، پہلے سے اگر تمام بیویوں کو آگاہ کر دیا گیا ہو تو ایک رات میں سب کچھ باآسانی ہو سکتا ہے۔ خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ نبی کو اپنے جیسا کمزور جانا، ایک ہی رات میں دس بیس مرتبہ اپنی بیویوں کے پاس جانا تو عام لوگوں کے لیے بھی کچھ مشکل نہیں تو ایک نبی جس میں تمام انسانوں کے مقابلہ میں ہر قوت بہت زیادہ ہوتی ہے تو اس کے فعل پر عقل کیوں دنگ رہ جاتی ہے؟ یا اس کو کیوں صریح عقل کے خلاف قرار دیا جاتا ہے؟ کیا عقل کے ٹھیکیدار چند عقل پرست ہیں؟کسی جلیل القدر محدث یا فقیہ یا خیر القرون کے فرد نے اس کا انکار نہیں کیا، معتزلہ یا ان سے متاثر حضرات ہی کا نام تو عقلاء نہیں ہے، اور تمام سلف صالحین نعوذ باللہ عقل سے کورے یا دینی غیرت سے محروم نہیں تھے، خلاف عقل اور خلاف عادت یا مافوق العقل الگ الگ چیزیں ہیں، یہ واقعہ خلاف عادت تو ہو سکتا ہے، خلاف عقل نہیں۔ (2) قسم اٹھانے والا اگر قسم کے ساتھ ان شاءاللہ کہہ لیتا ہے، تو اس کو استثناء کہتے ہیں، کیونکہ حضرت ابن عمر کی اس روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جس نے قسم اٹھائی اور ان شاءاللہ کہا، تو اس سے استثناء کر لیا۔ " اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے، جس نے قسم میں استثناء کر لیا تو وہ حانث نہیں ہو گا، لیکن جمہور کے نزدیک یہ شرط ہے کہ استثناء، قسم کے ساتھ متصل ہو، بلاوجہ سکوت و خاموشی اختیار کر کے، کچھ عرصہ کے بعد ان شاءاللہ نہ کہا ہو، ائمہ اربعہ، ثوری، ابو عبید اور اسحاق کا یہی موقف ہے، اگر سکوت کسی عارضہ اور ضرورت کی بنا پر ہو، تو وہ اتصال کے منافی نہیں ہے۔ (المغنی لابن قدامہ، دکتور ترکی، ج 13، ص 484 تا 485، مسئلہ نمبر 1797) بعض حضرات کے نزدیک اگر کوئی اور گفتگو نہ کرے یا مجلس سے اٹھ کر نہ گیا ہو، تو پھر کچھ وقفہ کے بعد بھی ان شاءاللہ کہنا صحیح ہے، امام اوزاعی، احمد، عطاء اور حسن بصری وغیرہم کا یہی نظریہ ہے۔ (المغنی، ج 13، ص 485) اور عام اہل علم کے نزدیک اس کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ ان شاءاللہ زبان سے کہے، دل میں کہنا استثناء نہیں ہے، حسن، نخعی، مالک، ثوری، اوزاعی، لیث، شافعی، اسحاق، ابوثور، ابن المنذر کا یہی نظریہ ہے، اس کے مخالف قول منقول نہیں ہے، ہاں امام احمد کا ایک قول ہے، اگر مظلوم، جان کے خوف سے قسم اٹھائے اور دل میں ان شاءاللہ کہہ لے، تو اس کے لیے گنجائش ہے۔ (المغنی، ج 13، ص 485-486) ۔ اگر قسم اللہ کی بجائے، طلاق یا غلام آزاد کرنے کی ہو، اس میں استثناء کرنا، اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک، یہاں بھی استثناء معتبر ہے، اتصال کی صورت میں قسم منعقد نہیں ہو گی، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک یہاں استثناء معتبر نہیں ہے، کیونکہ یہ تعلیق ہے، قسم نہیں ہے، امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے، عام طور پر امام احمد نے اس مسئلہ کا جواب دینے سے گریز کیا ہے، بعض دفعہ کہا ہے کہ یہاں استثناء مفید نہیں ہے۔ (المغنی، ج 13، مسئلہ نمبر 798، ص 488)