عبدہ بن سلیمان اور عبداللہ بن نمیر دونوں نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، البتہ ان دونوں نے کہا: "اس کے پاس (مال) ہو جس میں وصیت کرے (قابل وصیت مال ہو۔) " اور اس طرح نہیں کہا: "جس میں وصیت کرنا چاہتا ہو۔" (مفہوم وہی ہے، الفاظ کا فرق ہے
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے عبیداللہ کی مذکورہ بالا سند سے مذکورہ روایت، اس فرق سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیز موجود ہے“ یہ نہیں کہا، ”وہ اس کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4205
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وصیت کا تعلق صرف مال سے نہیں ہے، جیسا کہ داؤد ظاہری، ابن ابی لیلیٰ اور ابن شبرمہ کا نظریہ ہے، بلکہ کسی چیز کے منافع کے بارے میں بھی وصیت کی جا سکتی ہے، مثلا کوئی انسان یہ وصیت کرتا ہے کہ میرے اس گھر میں فلاں انسان ایک سال کے لیے مفت رہ سکے گا، یا میرے باغ کی اس سال کی آمدنی فلاں کو دی جائے گی، جمہور کے نزدیک وصیت کی تحریر پر گواہ بنانا بھی دوسرے دلائل کی رو سے ضروری ہے، اور امام احمد کے نزدیک گواہ بنانا ضروری نہیں ہے، اور وصیت کا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے، گواہوں کی موجودگی میں زبانی وصیت کرنا بھی بالاتفاق کافی ہے۔