سالم بن ابی جعد نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ (کی جانب) سے مدینہ آئے، تو میرا اونٹ بیمار ہو گیا۔۔۔ اور انہوں نے (ان سے) مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: "مجھے اپنا یہ اونٹ فروخت کر دو۔" میں نے کہا: نہیں، بلکہ وہ (ویسے ہی) آپ ہی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ وہ مجھے فروخت کر دو۔" میں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ آپ ہی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ اسے میرے یاتھ فروخت کر دو۔" میں نے کہا: ایک آدمی کا میرے ذمے سونے کا ایک اوقیہ (تقریبا 29 گرام) ہے، اس کے عوض یہ آپ کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: "میں نے لے لیا، تم اس پر مدینہ تک پہنچ جاؤ۔" کہا: جب میں مدینہ پہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "انہیں ایک اوقیہ سونا اور کچھ زیادہ بھی دو۔" کہا: انہوں نے مجھے ایک اوقیہ سونا دیا اور ایک قیراط زائد دیا۔ کہا: میں نے (دل میں) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ زائد عطیہ مجھ سے کبھی الگ نہ ہو گا۔ کہا: تو وہ میری تھیلی میں رہا حتی کہ حرہ کی جنگ کے دن اہل شام نے اسے (مجھ سے) چھین لیا۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھے، تو میرا اونٹ بیمار ہو گیا، آگے حدیث پورے واقعہ سمیت سنائی، جس میں یہ بھی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا، "اپنا یہ اونٹ مجھے بیچ دو،" میں نے عرض کیا، نہیں یہ آپ کا ہی تو ہے، آپ نے فرمایا، "نہیں، بلکہ مجھے اسے بیچو۔" میں نے عرض کیا، تو مجھ پر ایک آدمی کا اوقیہ سونا قرضہ ہے، اس کے عوض، یہ آپ کو دیتا ہوں، آپ نے فرمایا، "میں نے اسے لے لیا، تو اس پر مدینہ تک پہنچو،" تو جب میں مدینہ پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓ کو فرمایا: "اسے سونے کا ایک اوقیہ دو اور زائد بھی دو۔" تو اس نے مجھے سونے کا اوقیہ دیا، اور مجھے ایک قیراط زائد دیا، میں نے دل میں کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضافہ کبھی مجھ سے جدا نہیں ہو گا، تو وہ میرے کیسہ (تھیلی) میں رہا، حتی کہ حرہ کے دن، اہل شام نے وہ مجھ سے لے لیا۔