عمرہ بنت عبدالرحمان (بن عوف) نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے کے پاس جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی، ان دونوں کی آوازیں بلند تھیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے کچھ کمی کرنے کی اور کسی چیز میں نرمی کی درخواست کر رہا تھا اور وہ (دوسرا) کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس باہر تشریف لے گئے اور فرمانے لگے: "اللہ (کے نام) پر قسم اٹھانے والا کہاں ہے کہ وہ نیکی کا کام نہیں کرے گا؟" اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں ہوں، اس شخص کے لیے وی صورت ہے جو یہ پسند کرے۔ (وہ فورا اپنے بھائی کا مطالبہ مان گیا
امام مسلم بیان کرتے ہیں کہ لیث بن سعد نے اپنی سند سے کعب بن مالک ؓ کی روایت بیان کی، کہ میرا، عبداللہ ابن ابی حدرد کے ذمے مال تھا، وہ مجھے مل گئے تو میں نے انہیں پکڑ لیا، دونوں میں تکرار ہوا، جس سے ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور فرمایا: ”اے کعب!“ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا، گویا کہ آپ فرما رہے ہیں، آدھ لے لو، تو انہوں نے آدھا قرضہ ان سے لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3986
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام صاحب نے لیث بن سعد سے یہ روایت تعلیقابیان کی ہے، آغازسےسندحذف کر دی ہے، امام بخاری نے اس روایت کو لیث سے متصل سند سے بیان کیا ہے، اس طرح امام مسلم نے حدیث نمبر(19) میں استاد کا نام نہیں لیا، اس طرح مجہول استاد سے روایت بیان کی ہے، لیکن بخاری میں یہی روایت اسماعیل بن ابی اویس کے واسطہ سے بیان کی، اس لیے ممکن ہے، امام مسلم کی مراد امام بخاری ہے امام مسلم اسماعیل بن ابی اویس سے بلا واسطہ بھی روایت کرتے ہیں اور بلواسطہ بھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں ضرورت کے تحت، ضرورت کے مطابق، آواز کو بلند کرنا جائز ہے اور مسجد میں کسی سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، فریقین کے پاس سے گزرے تھے، اور آپﷺ نے خیال کیا، یہ معاملہ حل کر لیں گے، لیکن جب تکرار بڑھا تو آپﷺ آواز سن کر باہر تشریف لائے، تو آپﷺ نے اس اعتماد اور وثوق پر سفارش کر دی کہ اس کو قبول کر لیا جائے گا، اور آپﷺ کے اعتماد کے مطابق جھگڑے کے جوش کے دوران ہی حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کی بات کو اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے غور سے سنا اور آپﷺ کے اشارے کو سمجھ کر فورا اس پر عمل کیا اور اپنا قرض جو اسی (80) درہم تھا، اس میں سےآدھا معاف کردیا، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا، مقروض کو جب کچھ حصہ معاف کر دیا جائے، تو اسے باقی حصہ فوراادا کرنا چاہیے، سکت ہوتے ہوئے ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے، اور اس حدیث میں مربها کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں تو آپ نے ان کے جھگڑے کی طرف توجہ نہیں دی اور مرورمعنوی بھی مراد ہو سکتا ہے، کہ آپ کو گھر میں اس کا بلند آوازوں سے علم ہوگیا، تو پھر آپ باہر نکلے، جس سے معلوم ہوا، جو اختلاف ختم کرواسکتاہو، اس کو اختلاف ختم کرانے کے لیے اپنا کردارادا کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں سستی اور کاہلی نہیں کرنا چاہیے۔