حماد بن زید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوزبیر اور سعید بن میناء سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومہ، مخابرہ۔۔ ان دونوں (ابوزبیر اور سعید) میں سے ایک نے کہا: کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے۔ اور استثاء والی بیر سے منع فرمایا اور عرایا (کو خشک پھل کے عوض بیچنے) کی اجازت دی
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے یہی روایت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما کے شاگرد ابو زبیر سے بیان کرتے ہیں۔ اور اس میں معاومہ کی تشریح بیان نہیں کی گئی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3914
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: معاومہ، عام یا سال سے ہے، جس کا مقصد کسی پھل دار درخت یا باغ کو چند سال کے لیے فروخت کرنا، اور اس کو منع کرنے کا سبب غرر کا احتمال ہے، کیونکہ معلوم نہیں اگلے سال پھل آئے گا یا نہیں، اور اگر آئے گا تو باقی رہے گا یا کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے گا، جس سے خریدار کو نقصان پہنچے گا اور وہ قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرے گا، جس سے آپس میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو گا۔ ثنیا: اس سے مراد باغ کے کسی درخت کو فروخت کرنے سے مستثنیٰ قرار دینا ہے، اگر بائع اپنا باغ فروخت کرتا ہے، یا کوئی اور چیز فروخت کرتا ہے اور ایک غیر متعین درخت یا چیز کا استثناء کر لیتا ہے، مثلا کہے کہ دو درخت یا ایک درخت میرا ہو گا۔ یا کچھ چیز میری ہو گی تو یہ بالاتفاق منع ہے۔ لیکن اگر درختوں کی تعداد معلوم ہے یا چیز کی مقدار معلوم ہے پھر وہ ایک مخصوص اور معین فروخت کو مستثنیٰ کر لیتا ہے یا چیز کی معین مقدار کا استثناء کر لیتا ہے تو پھر بالاتفاق جائز ہے۔ لیکن اگر سامان کی مقدار معلوم نہیں ہے، مثلا گندم کا ڈھیر پڑا ہے معلوم نہیں ہے کہ گندم کتنی ہے پھر اگر وہ معین مقدار کا استثناء کرتا ہے، مثلا اس ڈھیر سے دو صاع میں رکھوں گا۔ تو پھر امام ابو حنیفہ، شافعی اور جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ لیکن امام مالک کے نزدیک جائز ہے۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر بہت کم چیز کا استثناء آتا ہے، جس میں نزاع اور جھگڑے کا خطرہ نہیں ہے، تو جائز ہونا چاہیے، جس طرح اس صورت میں جائز ہے، جب یہ کہتا ہے، اس کا آدھا حصہ میرا ہو گا یا چوتھا حصہ میرا ہو گا۔