الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ
لین دین کے مسائل
13. باب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ بُدُوِّ صَلاَحِهَا بِغَيْرِ شَرْطِ الْقَطْعِ:
13. باب: میوہ جب تک اس کی صلاحیت کا یقین نہ ہو درخت پر بیچنا درست نہیں جب کاٹنے کی شرط نہ ہوئی ہو۔
حدیث نمبر: 3863
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
عبیداللہ نے ہمیں نافع سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1534
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3863 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3863  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جس طرح ہمارے ملک میں آج کل یہ رواج ہے کہ پھلوں کے باغ،
فصل تیار ہونے سے بہت پہلے فروخت کر دئیے جاتے ہیں،
اسی طرح عرب میں کھجور اور انگور کے باغ اور درختوں کے پھل تیاری سے پہلے فروخت کر دیے جاتے تھے۔
اس طرح کھیتوں میں پیدا ہونے والا غلہ بھی،
تیاری سے پہلے ہی فروخت کر دیا جاتا تھا،
اور جب تیز آندھی چلتی یا زوردار بارش ہوتی یا اولے گرتے تو پھلوں اور غلہ کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا یا ان میں کسی خرابی و فساد یا بیماری کے پیدا ہونے کی بنا پر فصل نہ پکتی،
تو فریقین میں نزاع اور جھگڑا پیدا ہو جاتا،
کیونکہ مشتری کو قیمت ادا کرنا مشکل ہو جاتا۔
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو صلاح سے پہلے پھل یا غلہ بیچنے سے منع فرمایا۔
بدو يا بدو صلاح کی تفسیر:
احناف کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ پیداوار آفت اور فساد و بگاڑ سے محفوظ ہو جائے اور شوافع کے نزدیک اس کا معنی ہے پکنے کے آثار اور حلاوت و شیرینی پیدا ہو جائے اور مختلف احادیث کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں مطلوب ہیں،
کیونکہ بعض پھلوں میں یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں کہ جب تک وہ پھل زردی یا سرخی مائل نہ ہوں یا ان میں مٹھاس پیدا نہ ہو تو وہ آفت سے محفوط نہیں ہوتے۔
بدو صلاح سے پہلے بیع کرنے کا حکم اگر پھل ابھی ظاہر ہی نہیں ہوا تو بالاتفاق،
معدوم چیز کی بیع ہونے کی بنا پر یہ بیع باطل ہے،
لیکن اگر بدو صلاح سے پہلے پھل کی پیدائش کے بعد بیع ہوئی ہے تو اس کی تین صورتیں ہیں:
(1)
بائع نے مشتری کو فوری طور پر کچا پھل توڑ لینے کی شرط پر بیچا ہے،
تو جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز ہے کیونکہ یہاں پھل کا پکانا مطلوب ہی نہیں ہے۔
(2)
مشتری اس شرط پر خریدے کہ میں درختوں پر پکاؤں گا تو یہ بالاتفاق ناجائز ہے۔
(3)
بیع بغیر کسی شرط کے ہوتی ہے،
یعنی فوری توڑنے یا پکانے کی شرط نہیں لگائی گئی،
اس صورت میں امام مالک،
امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک ناجائز ہے،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے،
لیکن بائع مشتری کو فوری طور پر توڑنے پر مجبور کر سکے گا،
اور بقول حافظ ابن حجر،
امام بخاری کا رجحان اسی طرف ہے۔
(فتح الباری:
ج 4 ص 503،
مکتبہ دارالسلام)

اور امام زہری کا نظریہ یہی ہے لیکن آفت کی صورت میں بائع ذمہ دار ہو گا۔
بدوصلاح کے بعد بیع کرنے کا حکم:
اس کی بھی تین صورتیں ہیں:
(1)
بائع نے فروخت کرتے وقت،
فوری طور پر توڑنے کی شرط لگائی۔
(2)
مشتری نے درختوں پر پکانے کی شرط لگائی۔
(3)
بلا شرط فروخت کیا گیا۔
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک تینوں صورتیں جائز ہیں اور آخری صورت میں مشتری پکانے کے بعد پھل توڑ سکے گا،
پہلے توڑنا چاہیے تو یہ اس کی مرضی ہے،
امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک پہلی اور تیسری صورت جائز ہے اور دوسری صورت میں بیع فاسد ہے،
یعنی بیع فی نفسہ صحیح ہے لیکن شرط لگانا درست نہیں ہے،
اور تیسری صورت میں جب بائع کہے گا تو مشتری کو پھل توڑنا ہو گا،
گویا کہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک بد و صلاح سے پہلے ہو یا بعد میں فروخت کرنے کا ایک ہی حکم ہے،
دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے،
حالانکہ حدیث سے واضح طور پر فرق ثابت ہو رہا ہے،
امام محمد کے نزدیک اگر پھل اپنی پوری مقدار و جسامت تک پہنچ جائے،
تو پھر پھل پکانے کی شرط لگانا،
عرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے،
استحساناً جائز ہے،
اگر احناف کا موقف تسلیم کر لیا جائے تو باغات کے پھلوں کو درختوں کے بیچنے کی کوئی صورت بھی آج کل جائز صورت میں موجود نہیں،
کیونکہ بدو صلاح سے پہلے بیع ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق جائز نہیں ہے،
اور بد و صلاح کے بعد درختوں پر پکانے کی شرط پر احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے،
حالانکہ اگر بد و صلاح کے بعد بھی باغات فروخت کیے جاتے ہیں تو پکانے کی شرط پر ہی فروخت کیے جاتے ہیں،
اس لیے ان کو اس مسئلہ کے لیے حیلے بہانے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
جبکہ حدیث کی رو سے،
ائمہ ثلاثہ کے نزدیک بد و صلاح کے بعد بیچنا جائز ہے،
کسی تکلف میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے،
ہاں یہ حیلہ آسان ہے کہ بدو صلاح کے بعد باغ بلا شرط فروخت کیا جائے اور بائع مشتری کو اپنے طور پر پکنے تک اجازت دے دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3863