(عامر بن سعد کے بھائی) محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے اپنی حدیث میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی) گردن اور کندھے کے درمیان اپناہاتھ مار، پھر فرمایا: ” کیا لڑائی کر رہے ہو سعد؟ کہ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں .....“
محمد بن سعدؒ نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے درمیان اپنا ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”اے سعد! کیا لڑائی کرو گے؟ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 150
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الزكاة، باب: قول الله تعالی ﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ﴾ برقم (1478) والمولف [مسلم] في الزكاة، باب: اعطاء من يخاف علی ايمانه برقم (2432) انظر (((التحفة)) برقم (3921)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 381
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگ، جن کے دل میں ابھی دین پوری طرح راسخ نہیں ہوتا اور دین سے مفادات وابستہ کیے ہوتے ہیں، ان کی تالیف قلبی کے لیے اگر ضرورت اور حالات کا تقاضا ہو تو ان کو مالی اور مادی فوائد سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے، اور اس کے لیے وہ لوگ جو قدیم الاسلام لوگ ہیں اوردین سے پوری طرح آگاہ ہیں ان کو ایثار وقربانی سے کام لینا چاہیے، اور ان کی خواہش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرکے جہنم سے بچایا جائے۔ (2) اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے، اور ایمان باطنی عقائد سے عبارت ہے۔ انسان، دوسروں کے ظاہر سے آگاہ ہو سکتا ہے، اس لیے ان کو مسلمان قرار دے سکتا ہے، لیکن وہ دوسروں کے باطن سے آگاہ نہیں ہو سکتا، اس لیے قطعی اور یقینی قرائن وعلامات کے سوا کسی کویقین اور قطعیت کے ساتھ مومن نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ظاہری اعمال کے اعتبار سے مسلمان نظر آتا ہے، اس کی اصل حقیقت اور باطن سے اللہ آگاہ ہے، اور سفارش کرتے بھی اس کا اظہار کرے گا کہ میری معلومات کی حد تک یہ بات ایسے ہے۔ حضرت سعدؓ چونکہ حضرت جعیل بن سراقہؓ کے بارے میں مطمئن تھے، اس لیے انہیں رسول اللہ ﷺ کا مقصد اور غرض سمجھ میں نہیں آئی، اس لیے انہوں نے اصرار سے کام لیا اور رسول اللہﷺ کو ان کا الحاح واصرار ناگوار گزرا اور فرمایا: "أَقِتَالًا یَا سَعْد!" ”اے سعد! لڑتے ہو یا سفارش کرتے ہو۔ “ اس لیے سفارش کرنے والے کو بہت اصرار سے کام نہیں لیا جائے، اور نہ ہی اپنی سفارش کے منوانے پر زور دینا چاہیے، دوسرے کو بھی موقع دینا چاہیے کہ وہ حالت کے تقاضا کے مطابق فیصلہ کرے۔