عبدالوارث بن عبدالصمد کے دادا عبدالوارث بن سعید نے ایوب سے اسی سند کے ساتھ (یہی) روایت بیان کی اور (اپنی) حدیث میں کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) اس سے رجوع کرے حتی کہ اسے حالت طہر میں مجامعت کیے بغیر طلاق دے، اور کہا: "وہ اسے عدت کے آغاز میں طلاق دے۔" (یعنی اس طہر کے آغاز میں جس سے عدت شمار ہونی ہے
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے، ایوب کی مذکورہ بالا سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجوع کرنے کا حکم دیا، حتی کہ وہ اسے طہر میں قربت کیے بغیر طلاق دے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اسے عدت کے آغاز کے لیے طلاق دے۔“ یعنی عدت کے شروع میں طلاق دے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3663
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے استدلال کیا ہے کہ عدت طہر شمار ہوں گے اور قروء سے مراد طہر ہے حیض نہیں۔ امام سرخسی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ عدتیں دو ہیں مردوں کے اعتبار سے عدت تطلیق کہ شوہر ایسے طہر میں طلاق دے جس میں بیوی کے قریب نہیں گیا اور عدت نساء کہ وہ حیض کے اعتبار سے تین حیض انتظار وتوقف کریں امام طحاوی نے بھی اس کو اختیار کیا ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ قروء سے یہاں مراد حیض ہے۔ اگرچہ یہ لغوی طور پر طہر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔