الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الرِّضَاعِ
رضاعت کے احکام و مسائل
4. باب تَحْرِيمِ الرَّبِيبَةِ وَأُخْتِ الْمَرْأَةِ:
4. باب: ربیبہ (بیوی کی بیٹی) اور بیوی کی بہن کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3587
وحَدَّثَنِيهِ سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ . ح وحدثنا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حدثنا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنا زُهَيْرٌ ، كِلَاهُمَا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ سَوَاءً.
یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ اور زہیر دونوں نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی
یہی روایت مصنف اپنے دو اور اساتذہ سے ہشام بن عروہ ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1449
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3587 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3587  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکیلی بیوی نہیں تھیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بیویاں بھی تھیں۔
اس لیے انہوں نے چاہا جب میرے ساتھ اور بیویاں موجود ہیں کہ میں ان کو گوارا کر رہی ہوں تو اپنی بہن کو اس شرف ومنزلت میں شریک کیوں نہ کر لوں،
کیونکہ انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ بیک وقت دو بہنیں نکاح میں نہیں آ سکتیں یا وہ سمجھتی تھیں جس طرح آپ چار سے زائد شادیاں کر سکتے ہیں اسی طرح دو بہنوں سے بیک وقت نکاح بھی کر سکتے ہیں اور ان کی اس بہن کا نام جیسا کہ آ گے آ رہا ہے عزہ تھا۔
اگرچہ بعض نے اس کا نام حمنہ اور دُرہ بھی بیان کیا ہے لیکن مسلم کی روایت کو ترجیح حاصل ہے۔

حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی کا صحیح نام دُرہ ہی ہے۔
اس کو ذَرہ یا حمنہ کا نام دینا درست نہیں ہے۔
اس طرح اس کو زینب جس کا پہلا نام بَّرہ تھا قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔

ربیبہ سے مراد بیوی کی پہلے خاوند سے بیٹی ہے،
جس کی دوسرا خاوند نگہداشت اور سرپرستی کرتا ہے۔
اگرچہ وہ اس کی تربیت وکفالت میں نہ ہو۔
اورگود کی قید اغلبی ہے۔
یعنی عام طور پر ایسے ہوتا ہے یہ شرط اور احتراز کے لیے نہیں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ربا کے ساتھ اضعافاً مضاعفہ کی قید ہے،
جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3587